معاشی نظام درہم برہم، دنیا ایک نئے دور کی جانب گامزن،کرونا کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ

0
359

نیویارک(سلیم صدیقی کی تجزیاتی رپورٹ)قصے کہانیوں فلموں ڈراموں میں دنیا میں بڑی جنگوں اور آفات کا ذکر تسلسل سے کیا جاتا ہے ان وباﺅں جنگوں اور آفات سے پہلے اور یکے بعد حالات کا پتہ چلتا ہے ہماری نسل اور ہم سے کم عمر نوجوانوں کو نائن الیون سے قبل اور اسکے بعد کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کو ملا کہ اس سانحے نے دنیا کو کیسے بدل ڈالا سیاسی سماجی اقتصادی رویوں میں کیسا انقلاب آیا .اسی سانحے کی آڑ میں مسلم ممالک کی اکثریت بربریت کا نشانہ بنی اندرونی سازشوں اور دہشتگردی نے معاشروں پر بڑے گہرے اور برے اثرات مرتب کئے اور اب بھی جاری ہیں, دنیا بدل گئی خاندان بکھر گئے ،تہذیبیں اجڑ گئیں معشتیں دیوالیہ ہوگئیںاور دو ماہ قبل ایک نئی وبا نے بالکل نقشہ ہی تبدیل کر ڈالا ہے گو کہ ابھی جغرافیہ تبدیل ہونے کا ذکر قبل ازوقت ہے لیکن اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جب اس آفت کے ٹلنے کے بعد گرد بیٹھے گی تو نتیجہ کیا سامنے آئیگا تاہم2020کے قبل کی دنیا کی طرف اسی مشکل میں لوٹنا شاہد ممکن نہ ہوگا۔فارن پالیسی میگزین ایک ممتاز جریدہ ہے اس کے ایک حالیہ تجزئیے میں دنیا کے چوٹی کے ماہرین نے اپنے اپنے تجربات اور شعبوں کے پس منظر میں بتایا ہے کہ کورونا وائرس یا کوویڈ19کے تاریخی لمحات کے بعد کیا معمولات زندگی دوبارہ اسی مشکل میں لوٹ سکے گی۔جوزف سگلز نے اپنے آرٹیکل میں بتایا ہے کہ یہ جہاں بین الاقوامی سرحدیں اتنی اہم نہیں تھیں ،روزگار اور بہتر معیار زندگی کے لئے پڑوسی کے ملک میں ہجرت کرنا مشکل نہ تھا مگر اب یہ سرحدیں انتہائی اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ماسک دستانے سکیورٹی غیر معمولی احتیاط اور چیکنگ کے بعد اب یہ ممکن نہیں ہوگا ،اب ہر ملک خود بخود پرزور دے گا۔جیسا کہ پاکستان نے فوری طور پر کورونا کے انسداد کے لئے اقدامات اٹھائے ہیں اور پاکستان اب ماسک سینٹائزر وینٹی لیٹر قرنطینہ کی اشیاءبنانے اوربرآمد،امریکہ میں رئیل اسٹیٹ کا بحران آیا مگر حکومتی بیل آﺅٹ سے اس پر قابو پا لیا گیا۔مگر اب اس وبا کے نتیجے میں امریکی انتظامیہ بھی سمجھنے لگی ہے کہ یہ نظام زیادہ دیر تک نہیں چلنے والا صدر ٹرمپ بار بار اپنی بریفنگز میں اس کا ذکر کر چکے ہیں۔رابرٹ شلر کہتے ہیںCOVIDنے جنگ کی صورت پیدا کر دی ہے۔پوری دنیا الرٹ ہوگئی ہے موت کے سائے منڈلاتے نظر آتے ہیں دشمن باہر سے نہیں اندر سے ہے۔ZOOMٹیکنالوجی نے لوگوں کو محصور مگر قریب تر کر دیا ہے جو لوگ گھر سے دفتری امور سرانجام دیتے ہیں اس وائرس نے نئے نئے اداروں کی تشکیل اور تدابیر اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔جیسا کہ نائن الیون کے بعد ہوم لینڈ سکیورٹی جیسا ادارہ بنایا گیا تعاون اور شیئرنگ کے فارمولا پر نئے انداز سے کام ہوگا جنگ ختم ہونے کے بعد میڈیکل جیسے اداروں میں مزید تحقیق اور اقدامات کی ضرورت ہوگی۔بھارتی نژاد گیتا گوبی ناتھ کے مطابق اس وائرس نے اکانومی کو جام کردیا ہے لاکھوں جانوں کا ضیاع ہوگیا ہے۔میڈیکل سپلائزناپید ہوگئی ہیں بین الاقوامی اقتصادیات ایک نیا رخ اختیار کرنے جا رہی ہیں۔کارخانے بند ہونے سے اشیاءناپید یا لاگت میں بے انتہا اضافہ ہوگا اور نادرا لوگوں پر بوجھ بڑھے گاجس سے عدم استحکام کے خطرات میں اضافہ ہوگا امن وامان کے مسائل دیکھنے کو ملیں گے حکومتوں پر مالیاتی انتظامی دباﺅ میں اضافہ ہوگا مقامی سطح پر اشیاءکی تیاری کے رحجان میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ٹریول انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا سفر میں کمی دیکھنے کو ملے گی عام لوگ خود اپنے اوپر سفری پابندیاں عائد کرینگے تاہم بین الاقوامی طور پر اقدامات سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ایک اور ماہر نے خیال ظاہر کیا کہ اس وباءسے گلوبلائزیشن کے تابوت میں کیل ٹھوکی جائیگی۔بریگزٹ کا تجریہ اس کا گواہ ہے چین اور کئی دیگر یورپی ممالک نے دوسری جنگ عظیم کے بعد خود انحصاری پر توجہ دی اور ترقی کے معراج پر پہنچ گئے مگر اس وائرس نے سب کچھ ملیامیٹ کردیا۔حالات ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ میں باہر سے افرادی قوت میں کمی ہوگی مقامی مارکیٹ پر انحصار کرنا ہوگا۔ایڈم پورمن کا خیال ہے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں خلیج وسیع ہوگی، قوم پرستی کے رحجاناک میں اضافہ ہوگا۔ شاپنگ مالز کی اب وہ شکل نہ ہوگی جو پہلے تھی، چھوٹے تاجر دکاندار مشکلات کا شکار ہوگئے۔ٹریول انڈسٹری ٹیکسی سروس ہوٹلنگ وغیرہ ماضی کا قصہ نظر آئینگی۔لاک ڈاﺅن جتنا طویل ہوگا اس انڈسٹری کو اتنا زیادہ نقصان ہوگا۔کھولنے میں جلد بازی کی تو ناقابل تلافی نقصان نظر آتا ہے۔سیاست دانوں اور حکمرانوں کے تدبر کا وقت ہے وہ کیسے نبردآزما ہوتے ہیں۔ایک اور ایکسپرٹ پینڈم کے مطابق ڈیجیٹل کی منزل کی طرف سفر میں تیزی آئیگی مڈل سے ہائی سکلز کی جانب تیزی دیکھنے کو ملے گی۔پولیس انرجی فوڈ اور گورنمنٹ جابز میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔انٹرنیٹ اور آن لائن خدمات میں اضافہ ہوگا انٹرنیٹ سہولیات پر توجہ اور بہتری کی ضرورت پیش آئیگی۔کشور مجبوپانی کی نظر میں اب چین کی طرف جھکاﺅ دیکھنے کو ملے گا۔1842ءسے1949ءتک چین نے بہت ہزیمت اٹھائی مگر سبق سیکھا اپنوں نے اپنے آپ کو محدود کرلیا دوسروں سے قطع تعلق کرکے خود انحصاری پر توجہ دی اور ناقابل تسخیر بن گیا۔امریکی عوام جس قسم کے طرز زندگی کے عادی ہوگئے ہیں اسے اب جاری رکھنا مشکل ہوگا جنگوں سے دوری اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی بجائے اپنے گھر پر توجہ دی تو ممکن ہے دوبارہ بہتری کی جانب سفر میں زیادہ رکاوٹیں دیکھنے کو نہ ملیں۔درآمدات کی بجائے مقامی مینوفیکچرنگ پر پالیسی سازوں کو توجہ دینا ہوگی کم آمدنی والوں پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔صحت انشورنس ہائرایجوکیشن کے ظالمانہ استحصالی نظام میں انقلابی اصلاحات لانا ہونگی۔ان ماہرین کے مطابق یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ لاک ڈاﺅن کے فاقے یا نرمی کے بعد کی دنیا کیسے ہوگی، حالات کا تقاضا ہے کہ حکومتیں اور ادارے اپنا کام تو کر رہے ہیںاور پالیسیاں بھی بنائیں گے تاہم انفرادی طور پر بھی ہر انسان کو اپنی ترجیحات پر بھی توجہ دینا ہوگی۔اپنے معمولات کو بھی ایڈجسٹ کرنا ہوگا، سماجی اور معاشرتی رویوں میں حالات کے مطابق تبدیلی لانا ہو گی یعنی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے ہارڈ شپ میں کمی ہوسکے گی۔امریکی فیڈرل ریزرو بینک کے سربراہ نے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے وارننگ جاری کی ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح 25فیصد سے بھی تجاوز کر سکتی ہے ، سینٹ لوئس فیڈرل کے سربراہ بولارڈ نے ”پاکستان نیوز“ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملک کی اقتصادی صورتحال بہت خطرناک ہو چکی ہے ، یو ایس لیبر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق امریکہ میں بے روزگاری کی شرح میں صرف مارچ کے دوران 4.4 فیصد تک اضافہ ہوا ہے ، ملک میں اتنی بے روزگاری پہلے کبھی نہیں ہوئی ہے ، امید ہے کہ رواں برس کے اختتام تک ملک میں بے روزگاری کی شرح ڈبل ڈیجٹ میں داخل ہو جائے ، موجودہ حالات ملکی تاریخ کے بد ترین شٹ ڈاﺅن میں شمار ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک کی اقتصادی صورتحال زوال کی جانب رواں دواں ہے ۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here