صدارتی الیکشن میںخونی فسادات کا خدشہ

0
8

نیویارک (پاکستان نیوز) امریکی خفیہ اداروں نے قرار دیا ہے کہ رواں برس نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات خونی ہو سکتے ہیں ، ملکی ادارے کسی بڑے طوفان سے بچنے کے لیے ہوم ورک کر رہے ہیں، واشنگٹن ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے حامی دوبارہ بغاوت کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کانگریس اور وائٹ ہائوس پر حملہ کر سکتے ہیں ، ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سابق پرنسپل ڈپٹی جنرل کونسل جوزف مہر نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیپیٹل ہل ہر چھ جنوری جیسا حملہ دوبارہ ہو سکتا ہے لہٰذا امریکی اداروں کو اس کیلئے تیار رہنما چاہئے ، آنے والے صدارتی الیکشن کے نتائج ملک میں انتشار اور افرا تفری پیدا کرسکتے ہیں ، امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے حامی فل چارج ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے الیکشن کے نتائج تبدیل کرنے کی کوشش کی تو ملک میں خانہ جنگی جیسا ماحول پیدا ہو سکتا ہے ، ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی ریلیوں میں کھلے دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر ان کا راستہ روکا گیا تو پھر ملک نہیں بچے گا، خطرناک بات یہ ہے کہ وہ اپنے اس دعویٰ کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے حکمت عملی تیار کر چکے ہیں ، خدشہ یہی ہے کہ کہیں ٹرمپ کے مسلح حامی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آمنے سامنے نہ آ جائیں ، اگر ایسا ہو گیا تو حالات بدتر ہو سکتے ہیں ۔واضح رہے کہ صدر جو بائیڈن کی الیکٹورل کالج میں فتح کی باقاعدہ توثیق کے عمل کو روکنے کے لیے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل یا امریکی ایوان پارلیمان پر حملہ کر دیا گیا تھا، کیپیٹل ہل پر چھ جنوری کے حملے کو تین سال مکمل ہوگئے ہیں۔ اس واقعے کو امریکہ کی جمہوری تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کیپیٹل ہل پر 6 جنوری 2021 کو حملہ ہوا تھا جس میں سینکڑوں افراد کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔سزا یافتہ افراد میں انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند گروپس کے ارکان، سابق پولیس افسران، اولمپکس میں گول میڈل حاصل کرنے والے گولڈ میڈلسٹ اور امریکی مرین کے اہلکار شامل ہیں۔کیپیٹل ہل پر حملے کا کیس امریکی تاریخ کی سب سے بڑی فوجداری تحقیق بن گئی ہے۔ واشنگٹن کی وفاقی عدالتوں میں اس مقدمے سے متعلق مجرمانہ درخواستوں اور سزاؤں پر سماعتوں کا رش لگا ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملزمان کی تلاش کا سلسلہ اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکا۔متعلقہ حکام ابھی تک کیپیٹل ہل میں پرتشدد کارروائیوں میں مطلوب 80 سے زائد افراد کی شناخت کے لیے کام کر رہے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حملے سے ایک دن قبل ریپبلکن اور ڈیموکریٹک قومی کمیٹیوں کے دفاتر کے باہر کس نے پائپ بم رکھے تھے۔ اصل مسٹری یہی ہے جس کا حل ہونا ابھی باقی ہے جبکہ 6 جنوری کے حملے میں ملوث چند افراد اپنی سزا پوری کر کے رہا بھی ہو چکے ہیں لیکن دوسری جانب نئی گرفتاریوں کا بھی سلسلہ جاری ہے۔کیپیٹل ہل کیس سے متعلق سماعتیں اسی جوڈیشل کمپلیکس میں ہو رہی ہیں جہاں مارچ کے مہینے میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر 2020 کے انتخابات میں مبینہ مداخلت کا مقدمہ چلایا جائے گا۔کیپیٹل حملہ کیس میں 1,230 سے ائد افراد پر وفاقی جرائم کا الزام عائد کیا گیا ہے، جن میں بدعنوانی کے جرائم سے لے کر بغاوت کی سازش جیسے پولیس افسران پر حملے کے جرائم شامل ہیں۔تقریباً 730 افراد الزامات کا اعتراف کر چکے ہیں جبکہ تقریباً 170 افراد کو جج یا جیوری کے ذریعے طے کیے گئے مقدمے کی سماعت میں کم از کم ایک الزام میں سزا سنائی جا چکی ہے،صرف دو ملزمان کو تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دیا گیا ہے، تقریباً 750 ملزمان کو سزا سنائی گئی ہے جن میں سے دو تہائی افراد سزائے قید کاٹ رہے ہیں۔ ان مجرموں کو چند دنوں سے لے کر 22 سال کی مدت کی سزائے قید سنائی گئی ہے۔سب سے طویل سزا انتہائی دائیں بازو کے حامی گروپ ‘پراؤڈ بوائز’ کے سابق چیئرمین اینریکی تاریو کو سنائی گئی ہے جن پر نئے صدر کو اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹیں ڈالنے کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔دفاعی وکلاء اور پراسیکیوٹرز اس کیس کو قریب سے دیکھ رہے ہیں جس کی جلد ہی امریکی سپریم کورٹ میں سماعت کی جائے گی جو 6 جنوری کے سینکڑوں ملزمان پر اثر انداز ہو سکتی ہے لیکن اس کیس سے متعلق سب سے بڑی ‘مسٹری’ جس کا حل ہونا ابھی باقی ہے وہ پائپ بم رکھنے میں ملوث افراد کی شناخت ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here