سیاہ فاموں کی اولادیں، امریکی حکمران !!!

0
70
رمضان رانا
رمضان رانا

امریکہ میں عہد غلامی میں سیاہ فاموں کو منڈیوں میں پہنچا اور خریدا جاتا تھا جس طرح جانوروں کو منڈیوں میں کم دو زیادہ بھائو یا بولیاں لگتی تھیں۔ جو آج اس امریکہ کے حکمران سیاہ فام اوبامہ اور کملائی شکل میں نظر آتا ہے کہ دونوں کے والدین آدھے سفید آدھے فام سیاہ فام، آدھے انڈین، آدھے مسلمان اور آدھے ہندو اور آدھے عیسائی پائے گئے ہیں صدر اوبامہ کا والد سیاہ فام کینیا کا مسلمان باشندہ تھا۔ والدہ امریکی سفید فام عیسائی تھیں۔ والد اوبامہ کو تین ماہ کی عمر میں چھوڑ کر واپس کینیا چلا گیا تھا ماں نے دوسرے شوہر ایک مسلمان انڈونیشین سے شادی رچالی جن سے ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ اوبامہ کا بچپن والدین کی اس کشمکش میں گزرا۔ کبھی انہیں دینی مدرسوں میں بھی پڑھنے کا موقع ملا اسی طرح عملہ پھریس کے والد سیاہ فام جیکن اور والدہ بھارتی انڈین تھیں۔ والد عیسائی، والد ہندو تھیں جبکہ شوہر یہودی ہیں۔ جس کے باوجود اوبامہ شکاگو میں پہلے سٹی کونسل، پھر یو ایس اے سینٹر پھر وہ امریکہ کا صدر منتخب ہوا تھا۔ عملہ پھریس بھی پہلے پروسیکیوٹر پھر اٹارنی جنرل کیلیفورنیا بعدازاں نائب صدر امریکہ منتخب ہوتیں جو کبھی ممکن نہ تھا کہ سیاہ فاموں کی اولادیں امریکی حکمران بن جائیں۔ جو ایک انقلاب سے کم نہیں ہے۔ کہ سیاہ فام امریکی شہری ملک کا منتخب صدر بن جائے یہاں سو سال پہلے سیاہ فاموں کی بطور غلام خریدوفروخت جاری تھی جس پر ایک خوفناک سول وار ہوئی جس میں سیاحوں کو مکمل صدر ابراھام لنکن نے مکمل طور پر آزاد کردیا جس کیخلاف سفید فاموں کا شدید ردعمل آیا جو سوال وار میں منتقل ہوگیا تاہم سیاہ فاموں کی اولادیں امریکی حکمران بن چکی ہیں جن سے امید تھی کہ وہ اپنے سیاہ فامی کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر کے مظلوموں بے بسوں، بے گناہوں، معصوموں غریبوں کی مدد کریں گے۔ مگر ایسا نہ ہوا جنہوں نے امریکی لشکر کشی، توسیع پسندی اور جنگ وجدل کو جاری رکھا جن کے سامنے آج ہزاروں فلسطینی عوام کی نسل کشی ہو رہی ہے جس میں35ہزار بچے شہید ہوچکے ہیں جو صہیونی طاقتوں کی مزید مالی، عسکری اور اخلاقی مدد کر رہے ہیں کہ آج پوری دنیا بشمول اقوام متحدہ اسرائیل کی نسل کشی پر پریشان ہے مگر امریکی سفید فام ٹرمپ اور سیاہ فام عملہ پھریس دونوں فلسطینی عوام کی قتل وغارت گری پر بے حسی ہوچکے ہیں جو اسرائیل کے وحشیوں کو روک نہیں پائے ہیں کہ فلسطینی عوام کا قتل عام ہو رہا ہے۔ تاہم مجوزہ سیاہ فام اوبامہ اور کملہ پھریس نے افریقہ کے لئے کوئی آواز اٹھائی ہے جب افریقہ کی ایک ریاست لیبیا پر مغربی اور امریکی طاقتوں نے حملہ کیا۔ خوشحال لیبیا کو اجاڑ دیا۔ افریقی عوام کے ہمدرد کرنل قذافی کو قتل سرعام قتل کردیا گیا تھا۔ تو بھی امریکی سیاہ فام امریکی حکمرانی خاموش رہے۔ حالانکہ دونوں سیاہ فاموں کو لیبیا کی لوٹ مار اور کرنل قذافی کے قتل پر آواز بلند کرنا چاہتے تھا۔ بہرحال امریکی حکمرانوں کے مسلسل ظلم وستم بربریت کا سلسلہ جاری ہے جو کل تک کوریا، ویت نام، افغانستان، عراق، شام اور لیبیا میں دس ملین سے زیادہ انسانوں کا قتل عام کر چکے ہیں۔ جو آج اسرائیل نامی صہیونی طاقت کی مکمل حمایت کر رہے ہیں جو ہر روز سو کے قریب فلسطینی شہریوں کو قتل کر رہا ہے جو اب تک گزشتہ دس ماہ میں چالیس ہزار سے زیادہ فلسطینی عوام کو قتل کر چکا ہے جس میں بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لہذا اس مقام حکمرانوں کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی کہ انہوں نے بھی وہ عمل کیا جو سفید حکمران کرتے چلے آرہے تھے۔ شاید امریکی سلطنت زوال پذیر ہو رہی ہے جس کے حکم بلاتفریق سفید فام یا سیاہ فام انسانیت کے دونوں دشمن گزرے ہیں جو بہت جلد تاریخ سے مٹ جائیں گے۔ جن کے مدمقابل کئی طاقتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں جس میں چین، بھارت، روس اور دوسرے ممالک ہیں جو امریکی غلبے سے آزاد ہوجائیں گے۔ گھر میں نہ بانس رہے گا نہ بجے گی بانسری۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here