راحت فتح علی خان کی بوتل میں جِنّ تھا

0
25
حیدر علی
حیدر علی

راحت فتح علی خان کیلئے بوتل بڑی اہمیت کی حامل تھی، یہ کوئی معمولی ٹھرا یا ووڈکا کی بوتل نہ تھی،ورنہ راحت فتح علی خان کیلئے اُس کا دوبارہ خرید لینا کوئی زیادہ مشکل کام نہ تھا، پیسے کی اُن کے پاس ریل پیل ہے جہاں بھی جاتے ہیں وہاں سے نوٹوں کی بھری ہوئی بریف کیس لے کر واپس لوٹتے ہیں،اُن کا ٹرانزیکشن ہمیشہ ٹیکس فری ہوتا ہے، ملک کے اندر بھی اور باہر بھی، چند سال قبل جب وہ دہلی سے اپنے لائو لشکر کے ساتھ واپس لاہور آرہے تھے تو اچانک کسٹم والوں نے نمستے کہنے کے بجائے اُنہیں بریف کیس کھولنے کا حکم دے دیا،جب اُنہوں نے بریف کیس کھولا تو نوٹوںکی گڈی اُچھل کر باہر آنا شروع ہوگئی، راحت فتح علی خان کو یقینا شرمندگی اٹھانی پڑی تھی، کُل غیر قانونی مال و اسباب جو اُن کی تحویل سے برآمد ہوئے وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار ڈالر تھے یقینا اُن کے کسی دشمن نے کسٹم والوں کو اُن کے خلاف شکایت لگائی ہوگی کہ یہ بندہ اگر بریف کیس بھر بھر کر بھارت سے پاکستان لے جانا شروع کردیتا ہے تو بھارت ماتا کنگال ہوجائیگی لیکن اُس مردود کو یہ علم نہ تھا کہ بھارت کے ریزرو فنڈ میں کافی ڈالر جمع ہے ، تقریبا” پانچ سو بلین ڈالر اور اِس کے مقابلے میں اپنے پاکستان کے پاس کُل بارہ بلین ڈالر ہے لہٰذا بھارت سے بریف کیس بھر کے نوٹ لانا پاکستانیوں کیلئے اخلاقی طور پر، شریعتا”اور ضرورت کے تحت جائز ہے، بشرطیکہ پکڑے نہ جائیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ راحت فتح علی خان جوآسمان موسیقی کے ایک راہ نما ستارہ ہیںجس بوتل کیلئے اپنے ملازم کو مار پیٹ رہے تھے اُس میں کیا تھا؟ جواب بہت آسان ہے، اُس بوتل میں ایک جِن قید تھا،راحت فتح علی اُس جِن کو نکال کر کوئی حکم صادر کرنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ اُنہیں خدشہ تھا کہ جِن باہر نکلتے ہی فرار کی راہ اختیار کر لے گا لیکن اُن کے ملازم کو یہ پتا چل گیا تھا کہ بوتل میں جِن بند ہے ، اور اُس نے بوتل اُڑادی، اُس نے امید لگا لی تھی کہ جِن کے بوتل سے باہر نکلتے ہی اُس کی تقدیر بدل جائیگی، تاہم متضاد لوگوں کے اِس ضمن میں مختلف بیانات سامنے آئے ہیں ، ایک راوی کا کہنا ہے کہ بوتل کے جِن سے صرف دو افراد آگاہ تھے، ایک راحت فتح علی خان اور دوسرا اُنکا ملازم ، وہ دونوں چھپ چھپ کر جنگل میں جاتے اور کھود کو بوتل نکالا کرتے تھے، بوتل کے اندر سبز رنگ کا دھواں گردش کرتا رہتا تھا، ایک مرتبہ راحت فتح علی خان کی اُن کے محلے کے ایک شخص سے گھر میں شورو غل بپا ہونے کی وجہ سے لڑائی ہوگئی تھی، راحت فتح علی خان غصے میں جنگل میں گئے تھے اور بوتل سے جِن کو نکال دیا تھا، دیو قامت قد کا جِن برآمد ہوگیا تھا، راحت علی خان نے اُسے حکم دیا کہ وہ محلے کے اُس شحص کو دوتین دھوبی پاٹ لگاکر چھوڑدے، رات میں جب وہ شخص اپنے گھر کو جارہا تھا تو جِن نے اُسے اٹھا کر پٹخ دیا، جب وہ اٹھا تو جِن نے دوبارہ اُسے پٹخ دیا، صبح جب وہ اٹھا تو اُس شخص نے لوگوں کو بتایا کہ کوئی اُسے اُٹھا اُٹھا کر پٹخ رہا تھا، وہ اُس کے سامنے بے بس تھا، اُس نے کہا کہ وہ کیا بھو لو یا شیر زماں پہلوان بھی اُس سے کشتی لڑتے تو چِت ہوجاتے،اُس شخص نے دوبارہ کبھی راحت علی خان کے گھر میں شورو غل بپا ہونے کی شکایت نہیں کی لیکن راحت علی خان کے دماغ میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ وہ جِن کی خدمات حاصل کرکے بینک میں ڈاکہ ڈال سکتے ہیں اور پاکستان کے امیر ترین شخص بن سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے جب راحت علی خان جنگل میں جاکر بوتل نکالنے کی کوشش کی تو اُنہیں کہیں بھی بوتل نظر نہیں آئی، راحت فتح علی خان کو فورا”یہ شبہ ہوا کہ بوتل اُن کے ملازم نے اُڑادی ہے، اور اب وہ نہیں بلکہ اُن کا ملازم جِن کی خدمات حاصل کرکے پاکستان کا امیر ترین شخص بن جائیگا.اِس لئے راحت فتح علی خان اپنے ملازم کو اسٹوڈیو بلا کر اُس کی پٹائی شروع کردی تھی، اُنہوں نے اُس درویش کو تلاش کرنا بھی شروع کردیا تھا جس نے اُنہیں یہ بوتل فروخت کی تھی، وہ درویش اُنہیں مل گیا لیکن وہ اُنہیں مزید بوتل فروخت کرنے سے انکار کردیا، درویش نے اُن سے پوچھا کہ وہ کس مقصد کیلئے جِن کی خدمات حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو اُنہوں نے بتایا کہ وہ بینک میں ڈاکہ ڈالنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ جِن لاکرز روم کو برسٹ کردے،درویش نے صریحا” انکار کردیا کہ کسی غلط کام کیلئے وہ بوتل کسی کو نہیں دے سکتا، راحت فتح علی خان اور اُن کے ملازم کے مابین بوتل کے استعمال کیلئے سرد جنگ جاری تھی. ہر ایک اِس فکر میں رہتے تھے کہ وہ جنگل میں جائیں اور جِن کو نکال کر اپنا کوئی کام کروائیں۔راحت فتح علی خان جب اپنے ملازم کو پیٹ رہے تھے تو اُن کے ہاتھ میں پشاوری سینڈل تھی جس سے ملازم کے جسم میں شدید کرب و اذیت ہورہی تھی، ملازمین کو اُن کی غلطیوں پر مارنا پاکستان میں ایک عام رواج ہے، اِس کے تدارک کیلئے بننے والے سارے قانون ناقابل عمل ہیںاگر اِس بات کی تحقیقات کی جائے کہ کتنے ملازمین اپنے مالک کے تشدد سے ہر سال ہلاک ہوجاتے ہیں تو یہ اعداد و شمار پچاس ہزار تک پہنچ سکتا ہے،ظاہرا”تشدد کرنے والے مالکان ذہنی طور پر مفلوج ہوتے ہیں یا لازما”بلڈ پریشر کا شکار ، اُن میں تعلیم کا فقدان ، سماجی طور پر پیچھے رہ جانے کا رحجان اور جسمانی طور پر کمزوری کا شکار
ہونے کا عارضہ ہوتا ہے، امریکا میں تو کسی ملازم یاکسی بھی شخص کو ایک طمانچہ مار دینا زبردست قانون کے خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے اور سینکڑوں افراد اِس خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار ہوجاتے ہیں،بے خانماں، لچے لفنگوں کیلئے قانون ہاتھ میں لینا آسان ہے، لیکن تعلیمیافتہ اور قابل احترام لوگوں کیلئے باعث مصیبت بن جاتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here