بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے جموں و کشمیر کے متعلق حالیہ بیان پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے رد عمل دیا ہے۔ترجمان دفترخارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ بھارت کے یکطرفہ اقدامات مقبوضہ جموں و کشمیر میں حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتے ،انہوں نے کہا کہ پاکستان سفارت کاری اور مکالمے کے لیے پرعزم ہے لیکن کسی بھی جارحانہ اقدام کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کا تنازع بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازع ہے اور یہ تنازع اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ تنازع کا حل جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے انتہائی اہم ہے ، پاکستان کسی بھی ایسے بیانیے کو سختی سے مسترد کرتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہو کہ جموں و کشمیر کے تنازع کو یک طرفہ طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔ترجمان دفترخارجہ نے مزید کہا کہ کشمیر کے متعلق بھارتی دعوے نہ صرف گمراہ کن ہیں بلکہ خطرناک حد تک فریب ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں حقیقی امن اور استحکام صرف اسی صورت ممکن ہے جب تنازع جموں و کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کے ناقابل تنسیخ حق کے مطابق حل کیا جائے۔ پاکستان بھارت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اشتعال انگیز بیانات اور بے بنیاد دعوے ترک کرے۔ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ بھارت جموں و کشمیر کے تنازع کے منصفانہ، پرامن اور پائیدار حل کے لیے بامعنی مذاکرات میں شامل ہو کر جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے لیے کوشش کرے۔ترجمان دفتر خارجہ نے بھارتی وزیر خارجہ کے بیان پر اگرچہ دو دن کی تاخیر سے رد عمل دیا تاہم اس رد عمل میں دونوں ملکوں کے درمیان تنازع کشمیر کی وجہ سے اٹھنے والے مسائل کی درست طور پر نشاندہی کی گئی۔یہ رد عمل وزیر خارجہ کی سطح پر آنا چاہئے تھا ،جو نہیں آسکا ۔ کشمیر کے معاملے پر بھارتی وزیر خارجہ نے جو کچھ کہا اس کا مفہوم یہ تھا کہ پانچ اگست دو ہزار انیس کو بھارت نے جب کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تو اب کشمیر بھارت کا حصہ ہے،اس حصے کی بابت بھارت اب عالمی ثالثی کی طرف دیکھنے کی بجائے کسی مداخلت کی صورت میں جارحانہ رویہ اختیار کرے گا۔ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے اگلے روز 6 اگست 2019 کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ “اس بین الاقوامی تنازعے کے فریق کے طور پر، پاکستان غیر قانونی اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام ممکنہ آپشنز استعمال کرے گا۔” پاکستان نے کشمیر کی حیثیت منسوخی کو “یکطرفہ قدم” قرار دیا۔ 6 اگست 2019 کو کمانڈرز کی میٹنگ کے بعد،پاک فوج کیآرمی چیف نے کہا کہ پاکستانی فوج کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد میں آخری دم تک ان کے ساتھ کھڑی ہے اور فوج کشمیر کے لوگوں کی حمایت کے لیے ”کسی بھی حد تک” جائے گی۔بھارت کا یہ اقدام اس درجہ تشویش ناک تھا کہ صورتحال پر بحث کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا ہنگامی مشترکہ پارلیمانی اجلاس بلایا گیا۔ 7 اگست کو، مشترکہ پارلیمانی اجلاس نے بھارت کے اس اقدام کی مذمت کے لیے ایک قرارداد منظور کی اور اسے “غیر قانونی، یکطرفہ، لاپرواہی پر مبنی اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا ۔ساتاگست کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارت کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات کی سطح کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو واپس بلا لیا گیا اور پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر کو ملک بدر کر دیا گیا۔ اگلے دن، پاکستان نے سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین سروس اور تھر ایکسپریس کو معطل کر دیا۔ وزارت اطلاعات و نشریات نے بھارت کے ساتھ تمام ثقافتی تبادلوں پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا، جس میں پاکستان کے اندر بھارتی فلموں اور ڈراموں کی نمائش پر پابندی بھی شامل ہے۔ 9 اگست 2019 کو، پاکستان نے بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کا ایک بڑا حصہ باضابطہ طور پر معطل کر دیا اور بھارت سے تمام برآمدات اور درآمدات پر پابندی لگا دی۔بھارت نے اس سے قبل فروری دو ہزار انیس میں پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ۔پاکستانی حکومت نے اپنی فوج کو اختیار دیا کہ وہ پڑوسی ملک بھارت کی طرف سے کسی بھی جارحیت یا مہم جوئی کا فیصلہ کن اور جامع جواب دے ۔اگلے دن پاکستان نے بھارت کے دو لڑاکا طیارے مار گرائے۔اس سے کشیدگی یکایک بڑھ گئی لیکن بھارت کو مزید اشتعال انگیزی کی جرات نہ ہوئی۔بھارت اور پاکستان، دونوں جوہری طاقت ہیں، دونوں کشمیر کے علاقے پر لگ بھگ آٹھ دہائیوں سے لڑ رہے ہیں۔بھارت طویل عرصے سے پاکستان پر مسلح باغیوں کو پناہ دینے اور مدد کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کشمیر میں حریت پسند پاکستان کی شہہ پراس کی افواج کو نشانہ بناتے ہیں۔سچ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر نے وہاں کے باشندوں کو ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی ہے۔ہمالیہ کا علاقہ آزاد کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقوں میں تقسیم ہے ۔ بھارت ناجائز طور پر اس پر مکمل دعوی کرتا ہے ۔دونوں ملک تنازع کشمیر کے حل کے لئے چار جنگیں لڑ چکے ہیں۔بھارت نئے بین الاقوامی منظر نامے میں اہمیت ملنے پر کشمیر سمیت علاقائی تنازعات کو طاقت کے زور پر اپنے حق میں طے کرنا چاہتا ہے،بھارت کو یاد رکھنا چاہیئے کہ پاکستان کسی جارحیت کی صورت میں فوری جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
٭٭٭