”قرطبہ اداس ہے”

0
103
عامر بیگ

تلخ بڑی ہی یادیں ہیں آنکھوں میں انگارے ہیں
اپنی اس بربادی کے ذمہ دار سہارے ہیں
قلم کتاب کے لوگ سبھی اپنی دھن میں رہتے ہیں
سوہنی ستھری سوچوں کے سارے یہ بنجارے ہیں
عامر بیگ نے دیکھا ہے گھوم گھوم کے دنیا کو
چاروں اور تماشے ہیں سب دکھوں کے مارے ہیں
قرطبہ ُاداس ہے اصل میں نوحہ بھی ہے نہ صرف ایک عظیم سلطنت کے زوال کا، ایک بڑی تہذیب کی بربادی کا بلکہ مسلمانوں کی حالت زار کا جس کی یادگار الحمرا ہے ،غرناطہ کی مسجد ہے جس میں گھوڑے باندھ دئیے گئے وہ شہر ہے جس کے کھنڈرات آج بھی اس تباہی کی داستان سناتے ہیں ، جنہیں سنبھال لیا گیا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو عبرت ہو یا سیاحوں سے پیسے بٹورے جا سکیں۔ عارف افضال عثمانی صاحب کا شکریہ کہ مجھے دعوت دی کہ میں انکی کتاب کی رونمائی پر اظہار خیال کر سکوں، عثمانی صاحب کی یہ دوسری کتاب ہے جس کی رونمائی میں شرکت کا مجھے موقع ملا ہے، مبارکباد کیساتھ ایک نئی کتاب لکھنے کا مشورہ ابھی سے دئیے دیتا ہوں۔ سکول میں انگریزی کے استاد اکبر صاحب کہتے تھے کہ کسی بڑے اور تاریخی شہر کی آوارہ گردی بہت سی کتابوں کے مطالعہ سے بڑھ کر ہوتی ہے آوارہ گردی کرنے اور اب اس کتاب کو پڑھ کر کہا سچ ثابت ہوا۔ قرطبہ کا آنکھوں دیکھا حال جو عثمانی صاحب نے” قرطبہ اداس ہے” میں لکھ دیا ہے مجھے امید ہے کہ پڑھنے والوں کو نہ صرف اس علاقے کی بود وباش رہن سہن اور تاریخی اہمیت بارے آگاہی ہو گی بلکہ میں یقین دلاتا ہوں کہ عثمانی صاحب کے طرز بیان اور اردو زبان میں نہایت عمدہ فقرہ سازی قاری کو مایوس نہیں کرے گی، یہ تو ہمیں معلوم ہی تھا کہ عثمانی صاحب ایک مستندصحافی شاعر براڈکاسٹر اور بزنس مین ہیں” قرطبہ اُداس ہے” پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ ایک عمدہ سفرنامہ نگار بھی ہیں، مجھے خود پینتیس سے زائد ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے، زمانہ طالب علمی میں میرے اکثر پٹھان کلاس فیلوز مجھے پشاور آنے کا کہتے رہتے تھے ،میرا ان سے یہی کہنا تھا کہ جب تک پشتو نہیں سیکھ لیتا پشاور نہیں آئوں گا، اکثر کو سات سے آٹھ زبانیں سیکھنے کا موقع ملا اسی طرح نو عمری میں اسپینش سیکھنے کی ترغیب پابلو نورودا کی نظموں کے اردو ترجمے پڑھنے سے ہوا دیکھا جائے کہ اصل زبان میں کیسا لگے گا پھر جب جوانی آئی تو میکسیکن سنگر اور اداکارہ تھالیہ کے ڈرامے دیکھ کر دل چاہا کہ بس اب تو یہ زبان سیکھنی ہی ہے لہٰذا میں سپین جانے سے پہلے سپینش سیکھ چکا تھاکیوبا ڈومیکنین رپبلک کہ جہاں کا میں شہری بھی ہوں پاناما، وینزویلا، میکسیکو،چلی اور ارجنٹینا سے ہوکر جب میں میڈرڈ پہنچا تو وہاں مجھے اچھی کمپنی مل گئی جس کی وجہ سے سپین اور اسپینش کے طول وعرض کو دیکھنے اور جاننے میں کس قدر آسانی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے، لکھنا تو میں بھی سپین و قرطبہ کے بارے میں چاہتا تھا لیکن جتنا مفصل عثمانی صاحب نے سپینش نہ آنے کے باوجود لکھ دیا ہے میں نہیں سمجھتا کہ اب اس میں مزید کچھ اضافے کی گنجائش ہوگی جس طرح کولمبس نے پرانے وقتوں میں امریکہ کو ڈسکور کیا، جا کہیں اور رہے تھے مگر پہنچ گئے کہیں اور، ایسے ہی ابھی عثمانی صاحب نے قرطبہ پہنچ کر اس کی اداسی بارے دنیا کو مطلع کیا ،میں چاہوں گا انکا اگلا ٹارگٹ امریکہ ہو جس تسلی اور تفصل سے عثمانی صاحب نے امریکہ اور یہاں کے رہنے والوں کو دیکھا اور بھگتا ہے اتنا تو انہوں نے اپنا ملک بھی نہیں دیکھا ہوگا پانچ دنوں کے سفر میں اتنا زبردست سفر نامہ لکھ دیا تیس سال یہاں گزارنے کے بعد جو کچھ وہ لکھیں گے کمال ہی ہوگا۔ عارف بھائی اسم بامسمی ہیں انکا یقین انکا جاننا اور ماننا اس ذات پر قرطبہ میں جا کر مزید پختہ ہوگیا کہ جس کی اذان تک دینا وہاں ممنوع ہے عبادت و مساجد کی تو بات ہی چھوڑیں ،سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ اس یقین محکم کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا بلکہ قرطبہ اداس ہے کی صورت میں آپکے سامنے پیش کر دیا تاکہ دوسرے بھی جان لیں، مان لیں اور پہچان لیں اس کتاب کو آپ سب پڑھیں جس کو عارف افضال عثمانی نے ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد اور خطیر رقم خرچ کر کے لکھا ہے جانا اور پہچانا ہے گھر بیٹھے بیٹھے آپ بھی عارف بن سکتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here