ہاتھوں میں نہ کھیلو…وطن بچائو!!!

0
50
جاوید رانا

ابھی کالم لکھنا چاہتا ہی تھا کہ اپنے گزشتہ کالم کے تناظر میں وطن عزیز کی ابتر ہوتی ہوئی صورتحال اور محاذ آرائی کو واضح کر سکوں لیکن ایرانی صدر کی ہلاکت کی خبر نے میری ترجیح کا تعین کر دیا ہے۔ شمالی آزر بائیجان سے ایران و آزر بائیجان کے مشترکہ ڈیم کے افتتاح کے بعد واپس آرہے تھے، واپسی تین ہیلی کاپٹرز پر مشتمل افراد پر مشتمل تھی۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے صدارتی ہیلی کاپٹر میں صدر رئیسی کے ہمراہ وزیر خارجہ امیر عبداللیہان، مشرقی آزربائیجان کے گورنر، آیت اللہ کے کمانڈر تبریز کے امام، صدر کے سیکیورٹی انچارج و ہیلی کاپٹر عملے سمیت 9 افراد کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے ایران میں 5 روزہ سوگ کا اعلان کر دیا گیا، قارئین یقیناً 20 مئی کو ہونیوالے اس سانحے سے بین الاقوامی نشریات کے توسط سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ ہوتے رہے ہونگے۔ دو ہیلی کاپٹرز تو بخیر و آسانی منزل پر لینڈ کر چکے تھے جبکہ وہ ہیلی کاپٹرجس میں صدر رئیسی کے ہمراہ ایرانی قیادت کی کریم موجود تھی حادثے کا شکار ہوا۔ وجہ موسم کی شدت اور دھند میں خطرناک لینڈنگ قرار دیا جاتا رہا۔ سوال یہ ہے کہ موسمی حالات کے باوجود دو ہیلی کاپٹر بخیر و عافیت اُتر گئے، صرف وہی ہیلی کاپٹر شکار ہوا جس میں اعلیٰ قیادت موجود تھی۔ واضح رہے کہ متذکرہ ہیلی کاپٹر امریکی ساختہ Bell -212- نصف صدی پرانا تھا یہ بھی واضح ہو کہ امریکہ کی ایماء پر ایرا ن پر پابندی کے سبب امریکہ سے نیوکلیئر ہی نہیں عمومی سامان حتیٰ کہ اوزار پرزے خریدنے یا حاصل کرنے سے قاصر اور انہی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی صدرقاصر رہے۔ 45برس پرانے ہیلی کاپٹر کو استعمال کرنے پر مجبور تھا۔ بات پھر وہی آجاتی ہے کہ باقی دو ہیلی کاپٹر بھی تو نئے نہیں تھے۔ ایرانی ریاست نے تحقیقات کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ حقیقت بھی جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ ایران اور امریکہ کے تنازعہ کی تاریخ بہت طویل ہے اس ضمن میں مغربی دنیا اور امریکی مفاداتی ممالک سے بھی حالات موافق نہیں لیکن اسرائیل، غزہ تنازعے اور حماس کی ایرانی حمایت کی بناء پر اسرائیل اس بات پر تُلا ہوا ہے کہ امریکی سرپرستی سے وہ نہ صرف فلسطین بلکہ شام، ایران، یمن و دیگر عرب ممالک کیخلاف نبرد آزما رہے۔ شام میں ایرانی قونصلیٹ پر اسرائیلی حملے میں پاسداران کے اہم افراد کی ہلاکتوں کے بعد ایران کے اسرائیل پر بھرپور حملے نے امریکہ سمیت اسرائیل کی دیگر حمایتی قوتوں کو ایران کے عزم و عسکریت کے جذبے کا احساس دلا دیا تھا اور یہی وجہ بھی کہ امریکہ نے اسرائیل کو جوابی حملے سے گریز کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن یہودونصاریٰ کی فطرت میں انتقام کا حوالہ دین مبین واضح ہے۔ بات لمبی ہو جائیگی، قرائن و مبصرین کے تبصروں سے یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ یہ حادثہ محض خراب موسم یا دھند کے سبب نہیں بلکہ جس طرح ہیلی کاپٹر پہاڑپر گرا اور جیسے آگ لگ کر تمام لوگ جھلس گئے، اس کی تباہی محض خراب موسم کی بناء پر نہ ہوسکتی تھی بلکہ کسی اور طریقے پر ہوئی۔ شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ ایرانی ریاستی و مقتدر شخصیات جن کے دور میں یوکرائن جنگ، ایران سعودی عرب تعلقات، اسرائیل مخالف جہادی حریت پسندوں کی حمایت اور عالمی فورمز پر مؤقف کا برملا اظہار امریکہ، اسرائیل و مغربی طاقتوں کو ہدف تنقید کی پالیسی کا ابلاغ کا کامیاب مظاہرہ واضح رہا، انہیں کسی سازش کے تحت راہ سے ہٹانا مقصود تھا۔ قرائن یہی بتاتے ہیں کہ ہیلی کاپٹر کو میزائل یا سائبر کے ذریعے نشانہ بنایا گیا اور یہ اقدام بدلہ لینے کیلئے اسرائیل کے ذریعے کیا گیا۔ ذرائع سے تو یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسرائیلی افواج میں آزر بائیجان کے فوجیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ بہر حال یہ سانحہ صرف ایران ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کی وحدت و مضبوطی کیلئے بہت بڑا نقصان ہے۔
وحدت و یگانگت کے حوالے سے تو ملت اسلامیہ کے واحد نیوکلیائی ملک وطن عزیز کے حالات بھی امید افزاء نہیں نظر آرہے ہیں۔ اپنے گزشتہ کالم کچھ اچھا نہیں ہے میں ہم نے پاکستان میں سیاسی، ریاستی، عدالتی و آئینی تنازعات و خامہ فرسائیوں کی نشاندہی کی تھی، گزشتہ ہفتے سے ان معاملات میں کُھل کر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ ایک دوسرے کے مقابل آگئی ہے۔ فوج کے پروردہ فیصل واوڈا، مصطفی کمال، عون چودھری، کامران ٹیسوری، طلال چودھری کے عدلیہ کے مخالف پریس کانفرنسز و بیانات جواب میں عدلیہ کے فیصل واوڈا و مصطفی کمال کو کنٹیمپٹ کے شوکاز نوٹس، شاعر و کشمیری صحافی احمد فرہاد کی گمشدگی پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس کیانی کا سیکٹر کمانڈر سے کابینہ و وزیر اعظم کی دھجیاں اُڑانا، جسٹس اطہر من اللہ کے پراکسیز کے حوالے سے ریمارکس اور جواباً فیصل واوڈا اور حکومتی وزراء کا تشویشناک رد عمل اور تبصرہ طبل جنگ کا واضح اعلان ہی تو ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بتدریج ہوتی ہوئی گھمبیر صورتحال کیا ملک میں آئین و قانون کی بالادستی، جمہوریت کے تسلسل، اور وطن کی خوشحالی و سلامتی و ترقی کیلئے زہر ہلاہل نہیں ہے اور کیا ایسے میں نہ صرف اندرونی طور پر بلکہ بیرونی دنیا میں ہماری کوئی عزت و وقعت برقرار رہ سکے گی اور کیا ہمارے ازلی دشمن ہی نہیں دوسرے بھی ہمارے قومی تشخص اور سلامتی سے کھیلنے کا ارتکاب نہیں کرینگے۔ اداروں اور سیاستدانوں کی لڑائی وطن عزیز کو مزید کمزور اور انتشار کی گہرائیوں میں دھکیل رہی ہے یہی نہیں ہماری بے بضاعتی و کمزوری خطے اور عالمی سطح پر واضح ہو رہی ہے، بشکیک میں مصریوں اور کرغیزیوں کی لڑائی میں غیر ملکیوںپر ظلم و تشدد میں سب سے زیادہ متاثر پاکستانی طالبہ و عوام ہوئے ہیں وجہ یہ ہے کہ اپنے مفادات میں گھری ہوئی کمزور حکومت اور سفارتکاروں کی اول ترجیح مفادات اور بالادستی ہے، اداروں کی لڑائی اورناکام حکومتی کارکردگی بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔
ہم اور تو کچھ نہیں کر سکتے یہ استدعا کرنا چاہتے ہیں کہ فوج ہو، عدالتیں ہوں، سیاسی اشرافیہ یا بیورو کریسی و معاشی ذمہ دار او رمیڈیا (قومی و سوشل) اپنے مفاد و فیض کے حصول سے ماوراء ہو کر وطن اور عوام کیلئے سوچیں اور عمل پیرا ہوں ورنہ ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here