پلید نظام اور متناسب نمائندگی !!!

0
114
شبیر گُل

واقعہ مدینہ پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔ روضہ اقدس پر سانس بھی آہستہ لینا چاہئے، عرش الٰہی کے بعد سب سے مقدس مقام پر ہلڑ بازی قابل مذمت اور قابل نفرت ہے۔ میری خاک بھی اڑے گی، با ادب تیری گلی سے۔تیرے آستاں سے اونچا نہ میرا غبار ہوگا۔ اللھم صل وسلم و بار علی نبینا محمد و علی آلہ و ازواجہ و ذریتہ اجمعین کما صلیت و بارکت علی ال ابراھیم فی العالمین، انک حمید مجید۔ مسجد نبویۖ کے واقع سے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی۔مدینہ کا نام لیکر مدینہ کی توہین کرنا کسی صورت جائز نہیں۔سیاسی اختلافات نے مقدس مقام کا تقدس بھلا دیا۔پارٹی پالیٹکس اور شخصیت پرستی میں اس حد تک گر جانا کہ مناسک عمرہ کی توہین کردی جائے؟ پی ٹی آئی کے کارکن اندھی تقلید میں اپنی عبادات خراب نہ کریں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار پر ادب و احترام مومن کی معراج ہے۔ سیاسی اختلافات نے مقدس مقامات کے آداب بھلا دئیے۔پی ٹی آئی لیڈر شپ کی بے حسی قابل گرفت ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر بیہودگی کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔پی ٹی آئی نے ملک میں فاشسٹ سیاست کی بنیاد رکھی ہے ۔ عدم برداشت کے روئیے قوم کو تقسیم اور انتشار کیطرف لے جارہے ہیں۔ ریاست مدینہ کے علمبردارو! کچھ تو شرم کرو،کچھ حیا کرو۔ ملک میں گزشتہ چند سال میں جو سیاسی کلچر پروان چڑھا ہے وہ ایم کیو ایم کے فاشزم کی یاد تازہ کرتا ہے۔
پوری دنیا کے علما نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر نعرے بازی اور تقدس پامال کی مذمت کی ہے۔یہ وہ جگہ ہے جہاں آواز اونچا کرنے کی ممانعت ہے۔ مسجد نبوی میں سیاسی نعروں پر یوتھی قوم اوپر سے پریشان مگر اندر سے خوش ۔ فراڈی ،فسادی سیاستدانوں کو رمضان المبارک کے مقدس آیام کا احترام کرنا چاہئے۔ ریاست مدینہ کے نام کی تضہیک گئی۔رمضان کی راتوں کو ناچ گانے کونسی ریاست مدینہ میں تھا۔ پی ٹی آئی کے لیڈروں کی vulgarity ۔ ن لیگ کی لیڈر شپ کی گھٹیا پن۔ پی پی کے جیالوں کے مضہکہ انگیز بیانات، نے کارکنان کو ایکدوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔ لوگ اندھی تقلید میں ایک دوسرے خلاف دست و گریبان ہیں۔ بڑھتا ہوا عدم برداشت،سیاست میں نفرت کا راج۔ رہبر ایکدوسرے کی تضہیک کرنے کو کامیابی تصور کرتے ہیں۔پارٹی کارکن اپنے ماں باپ کو اتنا احترام اور عزت نہیں دے پاتے ، جتنا احترام اور عزت اپنے بدکار لیڈروں کو دیتے ہیں۔شخصیت پرستی میں مدہوش پارٹی کارکنان گستاخی رسول اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر خاموش رہتے ہیں انکی ماں مر جاتی ہے ۔ لیکن جب انکے لیڈر پر حرف آئے تو ایسے باہر نکلتے ہیں جیسے دنیا و آخرت انہی سے وابستہ ہے۔یعنی انکی ترجیح اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت نہیں بلکہ لیڈروں کی اطاعت ہے۔ خالانکہ شخصیت پسند شرک اور کفر ہے۔ ریاست کے نامعلوم اور خفیہ ہاتھ خاموش ہیں ۔خلائی مخلوق اور فسطائی ٹولہ کے روئیے سے باشعور حلقے اور قوم پریشان ہے۔ اس ڈیموکریٹ سسٹم نے کرپشن اور بدمعاشی کوفروغ دیا ہے۔ اداروں کوکمزور کیا ہے۔ ہر لیڈر اس بوسیدہ سسٹم پر انگلی اٹھاتا ہے ۔ اقتدار میں آنے کے بعد اسی غلیظ سسٹم کو سپورٹ کرتا ہے۔ سلیکٹڈ اور امپورٹیڈ حکومتیں اس غلاظت کی علامت ہیں ۔جس ملک میں ابا وزیراعظم، بیٹا وزیراعلی ہو ، مذھب و سیاست میں موروثیت ہو ، وہ ملک آپ کے لیے نہیں سیاسی کمپنیوں اور انکے بچوں کے لیے رہے گا ،عدالتیں اور آئین انکو تحفظ دے گا۔ موجودہ سسٹم میں عدالتیں چوروں اور لٹیروں کو تخفظ فراہم کرتی رہیں گی ۔ ظالمانہ اور سفاکانہ طرز حکومت اسی لئے برپا ہے کہ منصف قلم فروش ہے ۔ سپریم کورٹ کے باہر لگا ترازو اس سبزی فروش کے ترازو جیسا ہے جو کم تولنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ من پسند فیصلوں نے ملکی تقدیر کو گہنا دیا ہے۔ نہ جج کو کوئی پوچھ سکتا ہے اور نہ جرنیل کو۔ کیونکہ ریٹارمنٹ کے بعد یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا ان کا مستقل مسکن ہے۔ ملکی تقدیر کے فیصلے کرنے والے پاکستان میں رہنا پسند نہیں کرتے ۔
قوم کو سوچنا چاہئے کہ جن کے پاس ملکی راز، اور سیکورٹی ہو۔جوہری ٹیکنالوجی کا بٹن ہو ۔ پاکستان سے باہر نہیں رہنا چاہئے۔یہ لوگ ریٹارمنٹ کے بعد ملک سے بھاگ جاتے ہیں۔ ایسی قانون سازی ہونی چاہئے کہ جج، بیس گریڈ سے اوپر کا بیوروکریٹ، صدر، وزیراعظم،وزیر دفاع،وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اور ریٹارڈ جرنیل اپنی بقیہ زندگی پاکستان میں گزارنے کا پابند ہو۔نظریاتی اور ملکی آئین کے تابع ہو۔بے جا غیر ملکی دوروں پر بھی پابندی ہونی چاہئے۔ قارئین!!آئندہ ماہ ملک میں کشیدگی بڑھتی نظر آ رہی ہے ۔ معاشرہ تشدد اور مار کٹائی کیطرف جا رہا ہے۔ ملکی سیاست میں برداشت اور رواداری ختم ہوچکی ہے ۔
جس کام کا آغاز نواز شریف نے بینظیر کی عریاں تصویریں جہازوں سے پھنکوا کر کیا تھا۔ آج وہی کام نواز شریف کی بیٹی کر رہی ہے۔کبھی ججوں اور کبھی عمران خان کی تصویریں بنوا کر بے شرمی کا ثبوت دے رہی ہے۔ میرا ان دونوں جماعتوں سے کوئی تعلق نہیں ۔ لیکن اس بے حیائی کی مذمت کرنا ھمارا کام ہونا چاہئے۔ باز حیا خاندانی بچیاں ایسے کام نہیں کرتیں۔ بہرحال ان بڑی جماعتوں کی یہی ولگیرٹی ہے ، یہی پروگرام ہے۔ یہی کردار ہے ۔
ملک میں گیس، بجلی اور پانی کے منصوبہ جات پر جہاں ھم بیس سال پہلے کھڑے تھے ۔ آج بھی وہیں کھڑے ہیں ۔ملکی انڈسٹری کو چلانے والا مزدور آئے روز سیفٹی
کی وجہ سینکڑوں مزدور ہلاک ہوتے ہیں ۔غریب کی نہیں ہے۔مہنگائی سے غریب طبقہ پس گیا ہے۔
کھاد، زرعی ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں۔
مہنگائی کی روک تھام کے لئے اکنامک پالیسیز نہ ھونے کے برابر ہیں۔ مزدوروں کو سستی اشیا کی فراہمی کے لئے مستقل بنیادوں پر کوئی پروگرام نہیں ۔جا کی وجہ سے مزدور طبقہ پا گیا ہے۔ سرمایہ دار اپنی فیکٹریز میں مزدور کو سیفٹی کی سہولیات درہم نہیں کرتا۔
پرائس کنٹرول کمیٹیز ملی بھگت سے غریب کا خون چوس رہے ہیں۔ھم ٹی وی پر بیٹھے شکاگو کے مزدور کارونا رو رہے ہوتے ہیں۔ سانخہ بلدیہ ٹان کے شہدا آج تک انصاف سے محروم ہیں۔ کیونکہ اس میں ایک دہشت گرد جماعت ملوث تھی جو ہر دور حکومت میں شامل اقتدار رہی ہے۔
مزدور طبقہ دن بدن پسماندگی کیطرف جارہا ہے۔ یکم مئی مزدور کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں چھٹی دی جاتی ہے۔ دن منایا جاتا ہے۔ شکاگو کے مزدوروں کو سلیوٹ پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں مزدور کی بے کسی اورظلم پر بات نہئں کی جاتی۔
بلدیہ ٹان فیکٹری ڈھائی سو مزدور کی ہلاکت کی کوئی بات نہیں کرتا۔1977 میں ملتان کے ایک سو تیس مزدوروں کے قتل پر بات نہیں کی جاتی۔ھم شکاگو کی مزدوروں کو خراج تحسین پیش کرنے نکل پڑتے ہیں۔
معاشرے کی بنیادیں تعمیر کرنے والا ٹیچر آئے دن سڑکوں پر حقوق کے لئے احتجاج کرتا ہے۔ڈنڈے اور لاٹھیاں کھا کر خاموش ھو جاتا ہے۔اقتدار میں بیٹھے سیاسی گدھ بڑے بڑے بزنس، شوگر ملوں ،سیمنٹ فیکٹریوں،اسٹیل انڈسڑی ، پولڑی اور فوڈ انڈسڑی میں بیٹھے سیاستدان مزدور کو حقوق دینے کے لئے تیار نہیں۔ یہ بڑے لوگ اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اس لئے نچلے طبقے تک کسی قسم کا ریلیف نہیں پہنچتا۔
اکنامک ریفارمز میں کوئی consistency نہیں ہی۔ کوئی پالیسیز نہیں ہیں۔ لانگ ٹرم ، شارٹ ٹرم اور میڈ ٹرم پالیسیز نہیں ہیں۔ حکومتیں اپنا ٹنیور پورا نہئں کرپاتیں۔جو پالیسیز بنائی جاتی ہیں، حکومت کے اختیار کے ساتھ ختم ہو جاتی ہیں۔
ملک میں اکنامک stability کیلئے قومی سوچ کو اپنانا ہوگا۔کوئی بھی حکومت آئے پالیسیز جاری رہنے چاہی۔ پولیٹکل وکٹیمائزیشن ہر ادارہ میں موجود ہے۔جس کی وجہ اکنامک گروتھ جمود کا شکار رہتی ہے۔
انٹرنیشل مارکیٹ میں بڑھتے چیلنجز کے مقابلہ کے لئے فارن پالیسیز نہیں بنائی جاتیں۔
آنے والے دنوں میں پانی کی قلت کو دور کرنے کی کوئی پلاننگ نہیں۔
گندم میں خود کفالت کے لئے منصوبہ بندی نہیں۔کاٹن پروڈکشن میں بہتری کی کوششیں نہیں۔مہنگائی کی روک تھام کے لئے فوڈ انڈسڑی کے استحکام کیطرف توجہ نہیں۔
چھوٹے کسان کی حوصلہ افزائی کے لئے کوئی پلان نہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں یہ سیاسی گماشتے اسلامی نظریات کی ترویج ،اسلامی سزاں کے احیا اور سود کے حمائت میں ایک پیج پر ہیں۔ اسلئے قوم ان سیاسی جماعتوں کی ماضی اور حال رویوں کو نظر انداز نہ کرے۔
یہی وہ لوگ ہیں جو عوام کی حمائت کے لئے اللہ ،رسول اللہ اور اسلام کا نام لیکر انہیں بیووقوف بناتے ہیں ۔ان میں سے ایک حکمران ایسا نہیں جس نے سنجیدگی سے نظریہ پاکستان کو ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کی ہو۔ لہذا قوم ان ضمیر اور خلف فروش سیاسی لٹیروں کو مسترد کرتے ہوئے جماعت اسلامی کا ساتھ دے۔ جس نے
اپنے قول فعل سے نظریاتی اور اسلامی طرز زندگی کا پروگرام دیا ہے ۔ جو معاشرے کیمایوس لوگوں کے لئے امید کی کرن ہے۔ جماعت اسلامی ہمیشہ سے متناسب نمائندگی کو سپورٹ کرتی ہے۔
پاکستان میں انتخابات متناسب نمائندگی کی طرز
پر کرانے چاہئیں ۔ جس میں سیاسی پارٹیوں کے پروگرام کو عوام ووٹ دے کر صالح، باکردار ، نظریاتی اور محب وطن نمائندوں کو اسمبلیوں میں پہنچائے ۔ تاکہ سیاسی لوٹوں کی خرید و فروحت کا خاتمہ ہوسکے۔
٭٭٭

کہتے ہوئے اچ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here