گزشتہ سے پیوستہ!!!
عبادت خدا:۔امام حسن کی عبادت کا یہ عالم تھا کہ آپ ہر شب سورہ کہف کی تلاوت فرماتے اور فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بھی ذکر خدا میں مشغول رہتے، جب تک سورج طلوع نہ ہوجاتا، آپ ذکر الٰہی کے علاوہ کسی سے کوئی کلام نہیں کرتے تھے۔ آپ انتہائی شوق وسکون کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت فرماتے، تلاوت کے دوران جب آپ ایسی آیت مبارکہ تک پہنچتے جس میں مئومنین سے خطاب کیا گیا ہے۔تو آپ ارشاد فرماتے، لبیک اللھمہ لبیک۔۔۔مسجد کے دروازے کے قریب پہنچ کر آپ اپنا سر آسمان کی طرف بلند کرکے یہ دعا کرتے،۔”بارالٰہا!تیرا مہمان تیرے دروازے پر کھڑا ہے اے نیکو کار لوگوں کے پروردگار! تیرا گنہگار بندہ تیری بارگاہ میں کھڑا ہے پس اے رب کریم تیرے کام کا تقاضہ یہی ہے کہ میرے برے اور ناپسندیدہ کاموں کو نظر انداز فرما دے۔ امام حسن کے زہدوتقویٰ کا یہ عالم تھا کہ آپ دنیا کی طرف کبھی راغب نہ ہوئے،اور دنیا کی رعنائیوں سے آپ کو ہرگز کوئی دلچسپی نہ تھی چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے،۔”خشک روٹی کے ٹکڑے سے میری بھوک مٹ جاتی ہے، تھوڑے سے پانی سے میں اپنی پیاس بجھا لیتا ہوں ایسے کم قیمت کپڑے سے میں اپنا جسم چھپاتا ہوں کہ زندہ رہوں تو وہ میرا لباس رہے اور مر جائوں تو میرا کفن بن جائے۔ امام حسن کی سیاسی تحریک:۔آپ نے کفر والحاد اور الٰہی قیادت پر غاصبانہ تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد فرمائی تاکہ حضرت ابراہیم کی طرح وہ اللہ کے دین کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔آپ نے تاریک اور آلودہ ماحول میں اسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کے خلاف جو روش اختیار کی وہ انتہائی مئوثر اور مناسب ثابت ہوئی، آپ نے اپنے علم اخلاق اور اپنی مثالی بردباری کے ذریعہ الٰہی راستے یعنی رہ اسلام کی مخالفت کرنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ فرمایا اس طرح آپ اسلام کی حیات کی ضمانت بن گئی، کیونکہ امام حسن نے اپنے محاذ ضلح سے دشمن کو کھلی ہوئی شکست سے دوچار کردیا،نیز ان خطرات کو بھی ختم کردیا جو اسلام کی بنیادوں کو نیست ونابود کرنے والے تھے۔
امام حسن کی شہادت:۔28صفر کو یوم شہادت امام حسن مجتبیٰ ہے۔حاکم شام نے آپ کو زہر ہلاہل دلوا کر شہید کروایا۔جبکہ کریم اہل بیت کا جنازہ نانا کے جوار میں تدفین کے لئے لے جایا گیا تو حاسدوں نے نہ فقط جنازہ دفن نہ ہونے دیا بلکہ اٹھارہ تیر برسائے۔امام حسین اور آپ کے دیگر بھائیوں، رشتہ داروں نے جسم اطہر کو جنت البقیع میں دفن کیا۔جہاں آل سعود نے آپ کے روضے کو مسمار کردیا تھا۔
٭٭٭