دنیا کے تقریبا ہر مسلمان ملک میں رویتِ ہلال کمیٹیاں ایسے علمائے کرام پر مشتمل ہیں جو اپنے خطبوں میں یقینا سید الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ضرور سناتے ہوں گے کہ یہ اُمت ایک جسدِ واحد کی طرح ہے۔ اس بات کا بھی اعلان زور و شور سے کرتے ہونگے کہ سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری انسانیت کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے لیکن یہ تمام علمائے اُمت اور مذہبی سیاسی رہنما آج تک ایک دن کیلئے بھی اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ اس دنیا میں بسنے والے تمام مسلمانوں کا ایک ہی چاند ہے جو ایک ہی آسمان پر طلوع ہوتا ہے اور ایک ماہ میں تقریبا 29دن، 12 گھنٹے، 44 منٹ اور 28 سیکنڈ کی گردش مکمل کرتا ہے۔ اس ایک چاند کو اگر ہوائی کے ساحلوں سے لے کر فیجی کے جزیرے تک کہیں بھی دیکھ لیا جائے تو پوری دنیا کے مسلمان بیک وقت روزہ رکھ سکتے ہیں اور عید منا سکتے ہیں۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ دنیا میں کہیں بھی دو ملکوں کے درمیان 24 گھنٹوں سے زیادہ کا وقفہ نہیں۔ فیجی زمین کے مشرقی کونے میں واقع ہے، وہاں سے آپ مغرب کی طرف بڑھیں، چھ گھنٹے بعد جکارتا، چار گھنٹے بعدمکہ، ایک گھنٹے بعدقاہرہ، دو گھنٹے بعد لندن اور پانچ گھنٹے بعد نیویارک میں آپ اسی یکم جنوری کی نماز فجر اور نماز مغرب ادا کریں گے۔ لیکن اسی یکم جنوری کے آس پاس اگر چاند دیکھ کر عید کرنے کا معاملہ آ جائے تو پھر یہ عید تین جنوری تک چلتی چلی جائے گی۔ اس دوران چاند اپنا تین دن کا سفر مکمل کر چکا ہو گا۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم اپنے ملکوں میں چاند دیکھ کر اللہ کے رسول کی بتائی ہوئی حدودوقیود کے مطابق عید نہیں مناتے بلکہ قومی ریاستوں کی سرحدوں کے مطابق مناتے ہیں۔ 1971 سے پہلے پاکستان مشرقی اور مغربی دو حصوں پر مشتمل تھا بیچ میں ایک ہزار میل بھارت کے تھے لیکن چاند اگر چٹاگانگ میں نظر آ جاتا تھا تو گوادر اور پشاور والے عید کرتے تھے۔ لیکن آج اگر پاکستان کی رویتِ ہلال کمیٹی سے کہیں کہ ڈھاکہ میں چاند نظر آ گیا ہے تو وہ کہیں گے کہ بنگلہ دیش کا مطلع ہم سے الگ ہے۔ روس زمین کے شمال میں واقع ایک وسیع ملک ہے جس میں گیارہ ٹائم زون آتے ہیں۔ روس میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، روس میں بسنے والے تمام مسلمان ایک دن عید اس لئے کرتے ہیں کہ روس کی ایک عالمی سرحدہے، جبکہ 57 اسلامی ممالک بھی اسی طرح گیارہ ٹائم زون میں واقع ہیں جو مراکش سے برونائی تک پھیلا ہے۔ لیکن یہاں قومی سرحدوں کے حساب سے تمام ممالک میں علیحدہ علیحدہ عیدیں منائی جاتی ہیں۔ ہمارے علمائے امت کا کمال یہ ہے کہ یہ اپنے مسلکی اختلاف کو زمینی حقائق کا نام دیتے ہیں۔ ہمارے علما سعودی عرب یا ایران یا پھر کسی اور ملک کی رویت اس لئے نہیں مانتے کہ ان کا مسلک علیحدہ ہے۔ یہ وہ اختلاف ہے جس نے قومی ریاستوں اور ان کی حدود کو اللہ کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بھی زیادہ محترم اور مقدس بنا دیا ہے۔ گزشتہ چودہ سو سال کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اس امت کے تمام مسالک نے چاند کی رویت میں مطلع کا کبھی اختلاف نہیں کیا۔ فقہہ حنفی کی کتابوں الہدایہ او ر الدر المختار میں کہا گیا، اہلِ مشرق پر اہلِ مغرب کی رویت دلیل ہے۔ مالکی فقہہ کی کتاب ھدایتہ المجتہد اور مواہب الجلیل بلکہ قاضی ابو اسحاق نے ابن الماحبثون میں یہاں تک کہہ دیا اگر ایک ملک کے لوگوں کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ انہوں نے چاند دیکھاہے تو روزے کی قضا واجب ہے۔ یہی مسلک حنبلیوں کے ہاں الاحناف اور شافیعوں کے ہاںالمغنی میں درج ہے اور کیوں نہ ہو ان تمام آئمہ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت موجود تھی جو ان احادیث سے واضح ہے۔ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میں نے چاند دیکھا، آپ نے پوچھا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں۔ اس نے کہا ، ہاں، آپ نے فرمایا، بلال اعلان کر دو کل روزہ رکھیں (ترمذی، سنن ابنِ دائود) اس سے زیادہ واضح بات اس حدیث میں ہے۔ لوگ عید کے چاند میں اختلاف کرنے لگے کہ دو اعرابی آئے، انہوں نے اللہ کے رسول کے روبرو اللہ کو گواہ بنا کر کہا کہ کل رات انہوں نے چاند دیکھا ہے تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ روزہ توڑ دیں (ابو دائود)۔ ان دونوں احادیث میں نہ کہیں فاصلے کا ذکر ہے اور نہ ہی حدود و قیود کا۔ آج اگر مراکش کے ساحل پہ جہاں چاند پہلے طلوع ہوتا ہے۔ چند لوگ جو پارسا اور پرہیزگار بھی ہوں، وہ چاند دیکھ لیں اور صرف چند گھنٹے کی فلائٹ لے کر پاکستان کی رویتِ ہلال کمیٹی کے سامنے گواہی بھی دے دیں تو کیا ہماری رویتِ ہلال کمیٹی ان شواہد کی بنا پر اعلان کر دے گی کہ کل روزہ رکھو، یا اگر وہ عید کے روز لیٹ ہو جائیں تو یہ اعلان کرے گی کہ روزہ توڑ دو۔ شاید کبھی نہ کرے۔ اس لئے کہ ہمارے ہاں زمینی حقائق اور قومی ریاستوں کی حرمت، اللہ کے رسول کی سنت سے زیادہ محترم اور مقدس بن چکی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ یہ امت صرف چندسکینڈ کے وقفے سے بلکہ بعض اوقات تو براہِ راست عرفات میں دیئے جانے والا خطبہ سنتی ہے اور لندن، سڈنی یا دبئی میں ہونے والا میچ دیکھتی ہے۔ گیارہ ستمبرکو گھنٹوں ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے گرنے کا منظر ایسے دیکھا گیا جیسے وہ ان کے سامنے برپا تھا۔ لیکن اگر آپ اس امت کے اربابِ اختیارسے لے کر علمائے کرام سے پوچھیں کہ یہ پوری امت دنیا بھر میں ایک ساتھ چاند کیوں نہیں دیکھ سکتی تو آپ کو بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دینے لگیں گی۔ سب سے پہلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ زمینی حقائق میں قومی ریاست سب سے بڑی حقیقت ہے اور اس قومی ریاست کی حکومت ہی مسلمانوں کا ایک نظمِ اجتماعی ہے اور اس نظمِ اجتماعی کے تحت ہر ملک کی ایک رویتِ ہلال کمیٹی ہے۔ یعنی آج قومی ریاستیں اللہ کے احکام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے بھی بڑی حقیقت بن چکی ہیں۔ طورخم، تفتان اور خنجراب کی لکیروں کے ایک جانب کھڑے پاکستانی اور دوسری جانب کھڑے افغان، ایرانی اور چینی، جن کے سروں پر ایک ہی وسیع آسمان ہے، مگر ظلم یہ ہے کہ سرحد کے اس طرف موجود لوگ روزے سے ہوتے ہیں اور دوسری طرف والے عید منا رہے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان، ایران یا چین میں چاند نظر آیا تو ان کی عید ہو گئی۔ مگر ان کی چاند کی یہ رویت پاکستان کی سرحد پر طورخم، تفتان اور خنجراب پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارے علما کے نزدیک پاکستان کے لئے نیا آسمان شروع ہو جاتا ہے۔ ہم نے چاند پر بھی قومی ریاستوں کے سرحدی قوانین کا اطلاق لازم کر دیا ہے۔ اللہ کے چاند کے پاس کسی ملک کی سرحد عبور کرنے کے لئے کسی ویزے کی ضرورت نہیں مگر رویتِ ہلال کمیٹی چاند کو اس وقت مانے گی جب وہ ان کے ملک کی سرحد میں نظر آئے گا، اس کا پاکستان کا ویزہ لگے گا۔ کس قدر آسانی سے کہ اس اُمت کے 57 اسلامی ممالک آسٹریلیا سے امریکہ تک صرف چندمقامات پر چاند دیکھنے کے مراکز قائم کر کے پوری اُمت کو ایک رمضان اور ایک عید کا تحفہ دے سکتے ہیں۔
٭٭٭