کچھ لوگ یورپ میں اسلام کی تبلیغ کی ضرورت پر اکثر زور دیتے ہیں جو نہایت ایمان افروز بات ہے لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ اسلام کی تبلیغ کے نام پر چند مولویوں اور صوفیوں نے صدیوں سے کاروبار کھولا ہوا ہے۔ یہ علمائے سو ہیں جن کی دکانیں اسلام کی تبلیغ کے نام پر چل رہی ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں یہ لوگ جا کر مسلکی فتنہ بازیاں کر کے وہاں کے پر امن مذہبی ماحول کو تباہ و برباد کر رہے ہیں اور وہاں بھی فرقہ واریت کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ یہ لوگ انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور دیگر مغربی زبانوں سے نابلد ہیں تو یہ کِن میں دینِ اسلام پھیلا رہے ہیں ؟ ان میں مخلص خادمِ دین بھی ہیں لیکن اکثریت تاجرانِ دین کی ہے۔ یہ تبلیغ کے نام پر تجارت کرتے ہیں۔ یہ فرقوں اور مسالک کے مولوی ہیں۔ اب مسلمان تعداد میں اربوں ہیں لیکن یہ اب حرفِ مکرر ہیں۔ یہ سائینس اور ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں اور ملائیت، ملوکیت اور خانقاہیت کے دامِ ہمرنگِ زمیں کے اسیر ہیں۔ غلامانہ ذہنیت اِن کا وطیرہ ہے۔ اگر امتِ مسلمہ میں دم خم ہوتا تو غزہ اور کشمیر کے مسلمانوں کی درگت نہ بنائی جاتی۔ جنگیں دعاں ، نعروں اور تقریروں سے نہیں جیتی جاتیں۔ عربی زبان کا مقولہ ہے الحدید یقطع الحدید یعنی لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ مسلمانوں میں جہاد کی سکت ہی باقی نہیں رہی یہ جہاد کیا کریں گے۔ جہ جہاد شعلہ وار تقریروں سے نہیں جدید اسلحہ سے ہو گا جسے قوتِ ایمان بھی چاہئیے ۔ ڈاکٹر علامہ اقبال نے بجا فرمایا تھا!
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
کہ ناداں گِر پڑے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا
اسلام آئے ہوئے اب پندرھویں صدی آ گئی ہے۔ کہیں بھی اسلامی حکومت نہیں ہے۔ ملوکیت اور فسطائیت نے مسلمانوں کو ذلیل و خوار کر دیا ہے۔ مسلمانوں کے فرقے ایک دوسرے کو تاریخی، فقہی اور مسلکی اختلافات پر کافر قرار دے کر واجب القتل کے فتوے جاری کر رہے ہیں۔اب اصل تبلیغِ دین صرف اور صرف یہ ہے کہ قیامِ دین کیا جائے۔ اسلامی فلاحی حکومت مبنی بر جمہوریت اور سماجی انصاف قائم کریں۔ مساواتِ محمدی کا نظام قائم کر کے جاگیر داری ، سرمایہ داری، آمریت، ملوکیت، فرقہ واریت، ملائیت اور خانقاہیت سے نئی نسل کو بچائیں۔ تبلیغِ دین بجا لیکن قیامِ دین لازم۔ غریبوں، مسکینوں، یتیموں، بیواں اور بیماروں کے لیے فلاحی ریاست کا قیام ہی اصلِ تبلیغِ دین ہے۔ مظلوموں کو انصاف ملے۔ پہلے مسلمان ممالک نفاذِ دین کریں اور دنیا کو دکھائیں کہ ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کیسی ہوتی ہے۔ غیر مسلم خود بخود مسلمان ہو جائیں گے۔ انہیں کسی تبلیخ کی ضرورت نہ رہے گے۔ جیسا کہ انگریزی کا مقولہ ہے!
مسلمان ممالک مغرب سے سبق سیکھیں اور جمہوری فلاحی نظام نافذ
کریں اسلام نافذ ہو جائے گا اور تبلیغی جماعتوں کا مقصد بھی پورا ہو جائے گا۔ علامہ اقبال نے درست فرمایا تھا!
کس نہ گردد در جہاں محتاجِ کس
نکت شرعِ مبیں ایں است و بس
قرآنِ مجید کی سور آلِ عمران کی آیت 104 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے اور تم میں سے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں،قرآنِ مجید کے علاوہ تبلیغِ دین کی اہمیت کے بارے میں شیخ الحدیث ابو صالح محمد قاسم نے اپنی کتاب صراط الجنان فی تفسیرالقرآن میں پندرہ احادیث نقل کی ہیں۔
تبلیغِ دین کی دو اقسام ہیں۔ ایک غیر مسلم کو دعوتِ اسلام دینا۔ دوسرے مسلمانوں کو مومن بنانا۔ مسلمان کو مومن بنانے سے مراد ہے کہ زبانی مسلمان کو عملی مسلمان بنانا۔ اس ضمن میں قرآنِ مجید کی آیت ہے
اے رسول اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں۔ اِن سے فرما دیجیئے کہ یہ اسلام لائے ہیں۔ ایمان تو تمہارے دلوں میں ابھی داخل بھی نہیں ہوا
مسلمان اور مومن میں فرق ہے۔ مومن وہ ہے جو امن قائم کرے۔ مسلم وہ ہے جو سلامتی قائم کرے۔ گویا مسلم اور مومن صاحبانِ سلامتی و امن ہیں اور یہی دینِ اسلام ہے۔ اگرمسلمان حکومتیں نظامِ اسلام قائم نہیں کرتیں تو وہ اسلامی حکومتیں نہیں ہیں۔ مومن تو بہت دور کی بات ہے مسلمان بننے کے لیے ڈاکٹر علامہ اقبال کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے
جباری وقہاری و قددوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
چو می گویم مسلمانم، بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الہ را
اگر مسلمان ہونا کارِ آساں نہیں تو کیا مومن ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں؟
جو لوگ تبلیغِ دین بہ اخلاص کرتے ہیں ان پر قیامِ دین کا فریضہ بھی ہے ۔ وہ اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں ۔ آرزروئے قرآن یہی مومنینِ حق ہیں۔ مسلکی تبلیغ اسلام دوستی نہیں اسلام دشمنی ہے۔
٭٭٭