فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
90

محترم قارئین! جی۔ایم۔ سی فائونڈیشن کی طرف سے جاری ہونے والا ہفتہ وار آرٹیکل حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی شان میں لکھا جارہا ہے اس آرٹیکل کی نگرانی صاحبزادہ محمد معین الدین رضوی اور حاجی محمد لطیف چوہدری فرما رہے ہیں اور سرپرستی قائد ملت اسلامیہ جانشین حضور شمس المشائخ، سجادہ نشین حضور محدث اعظم پاکستان کے آستانہ عالیہ کے صاحبزادہ قاضی محمد فیض رسول حیدر رضوی زید شرفہ فرما رہے ہیں۔ اخلاص واہلیت کا یہ آئینہ دار ہے، فکر رضا، محدث اعظم پاکستان اور شمس المشائخ، نائب محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنھم کا سرچشمہ ہے اور ان سب نسبتوں کی برکت سے حضورر غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی برکتوں اور شفقتوں والی نسبت حاصل ہے۔ جس کو یہ نسبت حاصل ہے اس کا دنیا میں بھی بیڑا پار ہے اور آخرت میں بھی وہ کامیاب وکامران ہے کیوں نہ ہو؟ آپ نے خود فرمایا ہے، اے میرے مرید بے خوف ہو جا کیونکہ میرا رب اللہ ہے۔ اس نے مجھے بہت کچھ عطا کیا ہے، ان میں سے ایک رفعت ہے اور میں نے مقاصد کو حاصل کرلیا ہے۔ اس نسبت نے تو چوروں، ڈاکوئوں اور بد کرداروں کو قطب اور زمانے کا ولی بنا دیا ہے جیسے یہ نسبت حاصل ہے وہ دنیا اور آخرت کی پریشانیوں اور ہولناکیوں سے گھبراتا نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بڑی زیادہ نسبت ہے بہت چھوٹے چھوٹے لوگوں کو بڑا بنا دیتی ہے اور قسمت والوں کو حاصل ہوتی ہے۔
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ بہت صابر اور مستقل مزاج تھے۔ چنانچہ آپکو زمانہ طالب علمی میں اپنی تنگ دستی کے سبب بڑی بڑی شدید تکلیفیں پڑتی تھیں۔ والدہ ماجدہ رضی اللہ عنھا کبھی کبھار کچھ مختصر درہم و دینار بھیج دیتی تھیں۔ اسی سے خوردونوش کا کام چلتا تھا ایک مرتبہ بغداد میں بڑا ہی خوف ناک قحط پڑا۔ اس وقت آپ کو سخت مصائب وآفات کا سامنا تھا۔ فاقوں پر فاقے ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ فاقوں سے نڈھال اور بھوک سے بے تاب ہوکر ایک دن دریائے دجلہ کے کنارے تشریف لے گئے تاکہ درختوں کے پتے یا جنگلی پھل ہی کھا کر کچھ سکون حاصل کریں۔ مگر جس طرف جاتے ہر جگہ مساکین کا ہجوم پاتے اور کہیں بھی کھانے کے لائق کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ یہاں تک کہ پھر شہر کی طرف واپس آئے اور بھوک سے آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھا گیا اور چند قدم چلنا بھی محال ہوگیا تو ایک مسجد میں جاکر ایک گوشہ میں بیٹھ گئے اتنے میں کیا دیکھا؟ کہ ایک شخص مسجد میں آیا اور بھنا ہوا گوشت اور روٹی تھیلے سے نکال کر کھانے لگا۔ اتفاقاً اس کی نظر آپ پر پڑھی۔ تو اس نے کہا کہ آئو بھائی! تم بھی کھانا کھا لو۔ آپ نے پہلے تو انکار فرما دیا۔ مگر اس کے اصرار سے مجبور ہو کر دستر خوان پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں کیا دیکھا؟ وہ تو آپ سے سوال کرنے لگا۔ اس نے آپ کا حال پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں گیلان کا رہنے والا ہوں۔ اور تحصیل علم کے لئے بغداد آیا ہوں۔ یہ سن کر وہ چونکا اور بولا کہ میں بھی گیلان ہی کا باشندہ ہوں۔ اچھا تم بتائو؟ کہ تم گیلان کے رہنے والے اس طالبعلم کو جانتے ہو جس کا نام ”عبدالقادر” ہے آپ نے فرمایا کہ وہ تو میں ہی ہوں۔ یہ سن کر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے وہ رو رو کر کہنے لگا کہ سید زادے! خدا کی قسم میں نے تمہیں بہت تلاش کیا مگر تم نہیں ملے۔ اور بغداد میں میری ساری رقم ختم ہوگئی تمہاری والدہ نے چند درہم تمہارے لئے بھیجے تھے جو میرے پاس امانت تھے لیکن آج کہ تین دن کے مسلسل فاقوں سے میں جاں بلب ہوگیا تو میں نے تمہاری امانت میں سے یہ کھانا خریدا ہے۔ خدا کی قسم یہ کھانا تمہارا ہے اور میں تمہارا مہمان ہوں۔ میں نے انتہائی مجبوری میں تمہاری امانت میں خیانت کا یہ جرم کیا ہے۔ اللہ میرا یہ قصور معاف فرما دے، آپ نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے خندہ پیشانی کے ساتھ اس کو معاف فرما دیا اور اس کے پاس سے باقی درہموں کو لے کر اس کی دلجوئی کے لئے ان میں سے کچھ درہم اس کو عطا فرما کر رخصت کیا۔
ماشاء اللہ! کس قدر حمایت، سخاوت اور ہمدردی کا جذبہ کار فرما تھا اور وہ بھی پردیس میں اور وہ بھی طالب علمی دور میں اور وہ بھی قحط سالی کے عالم ہیں۔ ہم سب حضور غوث اعظم سرکار رضی اللہ عنہ کے نام کا لنگر شریف کھا رہے ہیں کھلا رہے ہیں لیکن حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی کے جذبہ سے سرشار ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ محفل کروانے، لنگر بانٹنے اور کھانے کا مقصد وحید آپ کی تعلیمات کو پھیلانا اور عمل کرنا ہے اور یہی اصل ہے اصل کا مطلب یہ نہیں کہ لنگر شریف کا انتظام وانصرام صحیح نہیں۔ نہیں بلکہ وہ تو بہت بڑا سبب ہے جمع ہونے کا ایک شخص بھی اصلاح پا گیا تو پوری محفل کا حق ادا ہوگیا۔ یہ تو تقریباً ہوتا ہی ہے کہ چند لوگ بڑی توجہ سے گفتگو بھی سنتے ہیں سمجھ نہ آنے پر سوال بھی کرتے ہیں اور پھر عمل کی بھی پوری پوری کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا اس کوشش میں آنے والے سب افراد شامل ہوجائیں تو پھر تو کیا ہی بات ہے ،اللہ پاک ہم سب کو حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کے فیض سے وافر حصہ عطا فرمائے اور تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here