ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ!!!

0
25
شبیر گُل

دوہزار چوبیس کا اختتام دنیا میں کئی تبدیلیاں کے ساتھ ھورہا ہے۔ اور نئے سال کا آغاز دنیا میں کئی نئی تبدیلیوں کے ساتھ ھوگا۔امریکہ میں ڈیموکریٹس کو شکست ہوئی۔ ڈانلڈ ٹرمپ کامیاب ھوئے۔ شمالی کوریا میں بادشاہیت کا خاتمہ ھوا۔ اور اب شام میں پچپن سالہ ظالمانہ دور اور بادشاہیت کا خاتمہ ھوا۔ خزب اختلاف کے بڑے گروپ نے فتح کا اعلان کردیا۔ شامی صدر خافظ الاسد ملک چھوڑ کر فرار۔ چھ لاکھ انسانوں کے قتل کے بعد ایک نئے دور کی ابتدا ھورہی ہے۔ روس، ایران اور خزب اللہ کی گرفت کزور۔عرب خطہ میں ایک نئی صبح کا آغاز۔ شام کے صدر بشار الاسد 24 سالہ اقتدار کے خاتمے پر ملک سے فرار ہوگئے، باغیوں کی جانب سے سرکاری ٹی وی پر دمشق کی فتح کا اعلان نشر ہوتے ہی ہزاروں افراد نے دارالحکومت کے مرکز میں واقع امیہ چوک میں آزادی کا جشن منایا۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق شامی فوج کی کمان نے افسران کو مطلع کیا ہے کہ باغیوں کے حملے کے بعد صدر بشار الاسد کی حکومت ختم ہو گئی ہے۔ شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ دمشق اب اسد سے آزاد ہے، فوج کے دو سینئر افسران نے رائٹرز کو بتایا کہ اس سے قبل بشار الاسد اتوار کے روز دمشق سے کسی نامعلوم مقام کے لیے روانہ ہوگئے تھے کیونکہ باغیوں نے دعوی کیا تھا کہ وہ دارالحکومت میں داخل ہوگئے ہیں اور فوج کی تعیناتی کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہزاروں افراد گاڑیوں اور پیدل دمشق کے ایک مرکزی چوک پر جمع ہوئے اور ہاتھ ہلا کر آزادی کے نعرے لگائے۔ باغیوں کا کہنا تھا کہ ہم شامی عوام کے ساتھ اپنے قیدیوں کی رہائی اور ان کی زنجیریں ٹوٹنے کی خبر پر جشن مناتے ہیں اور سدنیا جیل میں ناانصافی کے دور کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں۔ سدنیا دمشق کے مضافات میں واقع ایک بڑی فوجی جیل ہے جہاں شامی حکومت نے ہزاروں افراد کو حراست میں رکھا ہوا ہے۔ فلائٹ ریڈار کی ویب سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق دارالحکومت پر باغیوں کے قبضے کے بعد شامی ایئر کے ایک طیارے نے دمشق ایئرپورٹ سے اڑان بھری تھی۔ طیارے نے ابتدائی طور پر شام کے ساحلی علاقے کی جانب اڑان بھری، جو صدر بشارالاسد کے علوی فرقے کا گڑھ ہیتاہم پھر اچانک یو ٹرن لے کر کچھ منٹ تک مخالف سمت میں پرواز کے بعد نقشے سے غائب ہوگیا۔ خبر رساں ادارہ رائٹرز فوری طور پر یہ معلوم نہیں کرسکا کہ جہاز میں کون سوار تھا، شام کے سب سے بڑے حزب اختلاف کے گروپ ہادی البحرا شامی کے سربراہ نے بھی اتوار کے روز اعلان کیا کہ دمشق اب بشار الاسد کے بغیر ہے۔ الجزیرہ کے مطابق الیوشین 76 طیارہ جس کی فلائٹ نمبر سیریئن ایئر 9218 تھی، دمشق سے اڑان بھرنے والی آخری پرواز تھی، پہلے اس نے مشرق کی طرف اڑان بھری، پھر شمال کی طرف مڑ گیا اور چند منٹ بعد حمص کے گرد چکر لگاتے ہی اس کا سگنل غائب ہو گیا۔ الجزیرہ کے مطابق شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کر لیا ہے اور الاسد کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ مسلح اپوزیشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ظالم بشار الاسد بھاگ گیا ہے،ہم دمشق کو جابر بشار الاسد سے پاک قرار دیتے ہیں۔ وزیر اعظم محمد غازی الجلالی کا کہنا ہے کہ وہ اپنا گھر چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ سرکاری ادارے کام کرتے رہیں، انہوں نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ عوامی املاک کا تحفظ کریں۔ محمد غازی الجلالی نے کہا کہمیں سب پر زور دیتا ہوں کہ وہ منطقی طور پر سوچیں اور ملک کے بارے میں سوچیں، ہم اپوزیشن کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں جنہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا ہے اور زور دیا ہے کہ وہ اس ملک سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
اس سے چند گھنٹے قبل باغیوں نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے صرف ایک دن کی لڑائی کے بعد اہم شہر حمص کا مکمل قبضہ کر لیا ہے۔ مرکزی شہر سے فوج کے انخلا کے بعد حمص کے ہزاروں باشندے اسد چلا گیا، حمص آزاد ہے اور شام زندہ باد اور بشار الاسد مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ باغیوں نے جشن منانے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اور نوجوانوں نے شامی صدر کے پوسٹر پھاڑ دیے۔ حمص کے زوال کے نتیجے میں باغیوں نے شام کے تزویراتی مرکز اور ایک اہم شاہراہوں کے سنگم اک کنٹرول سنبھال لیا، جس نے دمشق کو ساحلی علاقے سے الگ کر دیا جو اسد کے علوی فرقے کا گڑھ ہے اور جہاں ان کے روسی اتحادیوں کا ایک بحری اڈہ اور فضائی اڈہ ہے۔ حمص کا قبضہ 13 سالہ تنازع میں باغی تحریک کی ڈرامائی واپسی کی ایک طاقتور علامت بھی ہے، حمص کے علاقوں کو کئی سال قبل باغیوں اور فوج کے درمیان شدید جنگ میں تباہ کر دیا گیا تھا۔ لڑائی کے نتیجے میں باغیوں کو شکست ہوئی تھی اور انہیں زبردستی باہر نکال دیا گیا تھا۔ باغیوں کی سرکردہ جماعت ہئیت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے حمص پر قبضے کو ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور جنگجوں پر زور دیا کہ وہ ہتھیار ڈالنے والوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ باغیوں نے شہر کی جیل سے ہزاروں قیدیوں کو رہا کر دیا، اس سے قبل شامی فوج ان قیدیوں کے دستاویزات جلانے کے بعد عجلت میں وہاں سے فرار ہوگئی تھیں۔ شام کے باغی کمانڈر حسن عبدالغنی نے اتوار کی صبح ایک بیان میں کہا کہ دمشق کے ارد گرد کے دیہی علاقوں کو مکمل طور پر آزاد کرانے کے لیے آپریشن جاری ہے اور باغی فورسز دارالحکومت کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ ایک مضافاتی علاقے میں اسد کے والد مرحوم صدر حافظ الاسد کا مجسمہ گرا کر توڑ دیا گیا۔شہر کے باہر، باغیوں نے 24 گھنٹوں میں پورے جنوب مغرب میں قبضہ کر لیا اور کنٹرول قائم کر لیا۔ دو دسمبر کو امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں تمام فریقین سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ کشیدگی میں کمی لائیں، سویلیز اور ان سے منسلک عمارتوں کو نقصان نہ پہچائیں اور انسانی حقوق کا خیال ر کھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2015 میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد کے تحت شام میں سیاسی تنازع کا سیاسی حل نکالا جائے۔ خیال رہے یہ چاروں ممالک شامی صدر بشار الاسد کے مخالفین میں شامل ہیں۔ 30 نومبر کو وائٹ ہاس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان شان شیوٹ نے کہا تھا کہ بشار الاسد کا سیاسی عمل میں شامل ہونے سے انکار اور ان کے ‘روس اور ایران پر انحصار’ نے ملک میں ‘موجودہ واقعات کو جنم دیا ہے۔’ انہوں نے کہا امریکہ کا شام کی لڑائی سے کوئی تعلق نہیں۔ ترکی اس وقت شام کی صورتحال میں سب سے زیادہ دلچپسی لیتا ہوا نظر آ رہا ہے اور اس کا ثبوت صدر رجب طیب اردوغان سمیت سینیئر حکام کے حالیہ بیانات ہیں۔ جمعے کو ترکی کے صدر اردوغان نے کہا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ باغی فورسز شامی دارالحکومت دمشق تک پیش قدمی جاری رکھیں گی۔ تاہم انھوں نے ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ باغیوں کے بیچ ‘دہشتگرد تنظیمیں’ بھی موجودہ صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ ایران کے لئے شام اور لبنان کے بعد غزہ میں بھی حالات تنگ ھوچکے ہیں۔ خزاب اللہ اور حماس کی طاقت میں کمزوری آئے گی۔ باغیوں نے دمشق پر قبضہ اور صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کردیا۔شامی باغیوں نے دمشق پر قبضے اور صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے بعد سرکاری ٹی وی پر پہلا خطاب کیا جس میں آزاد شام کی خود مختاری اور سالمیت کی یقین دہانی کرائی۔شامی باغیوں نے کہا کہ شام میں سیاہ دور کا خاتمہ کرنے کے بعد نیا عہد شروع ہونے جارہا ہے، شام کی تمام سرکاری، غیر سرکاری املاک اور تنصیبات کا تحفظ کیا جائے گا اور جیلوں سے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا جائیگا۔برطانوی خبر ایجنسی نے دعوی کیا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد طیارے پر سوار ہو کر نامعلوم مقام پر چلے گئے ہیں، دمشق کے امیہ چوک پر عوام جمع ہوئے جن میں سے سیکڑوں افراد فوج کے چھوڑے ہوئے ٹینکوں پر بھی چڑھ گئے۔شام میں اسد خاندان کے سربراہ حافظ الاسد نے 1971 سے2000 تک حکومت کی اور پھر بشار الاسد نے والد حافظ الاسد کے انتقال کے بعد جولائی 2000 سے اقتدار سنبھالا۔ذرائع کے مطابق باغی فورسز کے پاس بشار الاسد کے مقام کے بارے میں کوئی ٹھوس انٹیلی جنس رپورٹ نہیں ہیں اور وہ انہیں تلاش کر رہے ہیں۔قطری میڈیا کے مطابق شام کی افواج دمشق کے داخلی راستوں سے پیچھے ہٹ گئی تھی اور باغیوں کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوا۔شام میں فوج کے وزارت دفاع کا ہیڈ کوارٹرز بھی خالی کرنے کی اطلاعات ہیں جبکہ باغیوں نے سرکاری ٹی وی اور ریڈیو عمارتوں کا بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔دوسری جانب قطر میں ہونے والے دوحہ فورم کا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا۔اعلامیے کے مطابق قطر، سعودی عرب، اردن، مصر، عراق، ایران، ترکیے اور روس نے مشترکہ اعلامیے میں کہا ہے کہ شام کی موجودہ صورتحال علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ فوجی آپریشنز روکنے اور شہریوں کی حفاظت کے لیے سیاسی حل کی ضرورت ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز حکومت نے صدر بشار الاسد کے دمشق چھوڑنے کی اطلاعات کی تردید کی تھی اور اس سے پہلے باغیوں نے حمص شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا۔حمص کی فوجی جیل سے ساڑھے 3 ہزار سے زائد قیدیوں کو چھوڑ دیا گیا تھا۔ دوہزار چوبیس کا سورج کئی دلخراش واقعات لیکرغروب ھوگا۔جن میں سرفہرست غزہ میں اسرائیلی مظالم ہیں ۔ جنوبی کوریا میں منگل کی رات کو جب اچانک مارشل لگایا گیا تو اس کے بعد پیش آنے والے واقعات میں سے چند ایسے مناظر بھی تھے جو ملک کی تاریخ کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ ایسا ہی ایک منظر جس نے جنوبی کوریا سمیت دنیا بھر میں لوگوں کی توجہ حاصل کی وہ مسلح فوجیوں کے سامنے ڈٹ جانے والی ایک خاتون تھیں۔ ان فوجیوں کو جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ کے باہر اس مقصد سے تعینات کیا گیا تھا کہ وہ اراکین اسمبلی کو اندر نہ داخل ہونے دیں۔ لیکن یہ خاتون کون تھیں؟ 35 سالہ آہن گوی ریونگ جنوبی کوریا کی حزب مخالف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی ترجمان ہیں۔ ان کی وائرل ہو جانے والی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ وہ ایک فوجی کی بندوق پکڑ کر جیسے چھیننے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تاہم وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہیں اور اس دوران فوجی اہلکار کی جانب سے ان پر گولی نہیں چلائی جاتی۔ لیکن پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں عوامی احتجاج پر گولی چلائی جاتی ہے۔ لیکن گولی چلانے والے بھول گئے ھیں کہ عوامی طاقت ڈکٹیڑوں، اور ظالم طالع آزماں کو خش و خشاک کیطرح بہا لے جاتے ہیں۔پروٹوکول اور ہٹو بچو کی صدائیں سننے والے ذلت اور گمنامی میں مرجاتے ہیں ۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے ۔ظالم اللہ کی گرفت سے بچ نہیں پاتا۔دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب اس کا مقدر ہوا کرتا ہے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ۔ٹپکے گا تو جم جائے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here