ڈاکٹر شازیہ اکبر
ڈاکٹر مقصود جعفری ایسی شخصیت ہیں جن سے جوش ملیح آبادی کو قلیل مدت میں کثیر محبت ہو جائے اور جن کی قلم کاری اور خوش گفتاری کے سید ضمیر جعفری مداح ہوں۔ فیض احمد فیض، ڈاکٹر جاوید اقبال ، محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسی زعیم شخصیات جن کی شاعری کی تعریف کریں جن کو احمد فراز علمی اور ادبی محافل کے روحِ رواں کہتے ہوں۔ آپ کے علمی اور ادبی مقام کے یہ سب لوگ قائل تھے۔ بہت کم ادبی شخصیات ہم نے ایسی دیکھی ہیں جو زندگی کے ہر دور میں اور عمر کے ہر حصے میں فعال نظر آتی ہوں اور ان کے تخلیقی و تنقیدی جوہر کا گوہر کبھی ماند نہیں پڑتا ہو۔
ڈاکٹر مقصود جعفری کی ہر دلعزیزی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی نہ صرف زبانی کلامی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ ان کو قدر و عزت اور اہمیت کا احساس دلانے کی خاطر ان کی کاوشوں پر حوصلہ افزا کالم اور دیباچے بھی تحریر کیے۔ یہ ان کی کشادہ ظرفی اور مثبت پسندی کی دلیل ہے کہ انہوں نے کبھی کسی جونئیر کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ وگرنہ بہت سے مصروف اہلِ قلم اپنے گرد ایک غیر مرئی دیوار چنوا کر اس میں ایک مخصوص گروہ کو شامل کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک خاص تکبر و رعونت کا کلف لگا کر بیٹھتے ہیں مگر ڈاکٹر مقصود جعفری کی طرح ہمارے ادبی اور علمی حلقوں میں ایسی نادر اور چراغ صفت ایسے اہلِ قلم بھی موجود ہیں جو کہتے ہیں!
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
آج ان کی نئی تصنیف ادبی تبصرے جسے نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد نے شائع کیا ہے، اِس کی تقریبِ رونمائی میں یہ مقالہ پیش کرنا میرا افتخار ہے کہ عالمی شہرت یافتہ دانشور اور شاعر پر اظہارِ خیال کرنا کسی ادبی سعادت سے کم نہیں۔ یہ کتاب ان کی مثبت پسندی اور ادب دوستی کی مثال ہے۔ انہوں نے نئے اہلِ قلم پر جو مضامین اور کالم تحریر کیے وہ لائقِ صد ستائش ادبی خدمت ہے۔اِس کتاب میں نہ صرف نئے لکھنے والوں کا تعارف ملتا ہے بلکہ کئی معروف قدیم اور جدید شعرا کا تعارف، ان کے اشعار اور افکار بھی ملتے ہیں جس سے یہ کتاب ایک ادبی شہکار اور شہپارہ بن گئی ہے۔ نامور شعرا کے ساتھ آپ کی وابستگی اور دوستی کا بھی جابجا ذکر ملتا ہے جس سے ہمیں ان عظیم شاعروں اور دانشوروں کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ گویا یہ کتاب بقولِ مرزا غالب جہانِ معانی کا گنجین طلسم ہے۔ وہ قلم کاروں میں صرف نئے ادیبوں اور شاعروں کو ہی خوش آمدید نہیں کہتے بلکہ بچھڑ جانے والے رفقا کی یاد میں اشکوں سے چراغاں بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گزرے ہوئے لمحات کی باتیں، یادیں اور محبتں آج بھی ان کے دلِ حزیں میں جاگزیں ہیں۔ وہ اِس حسین روایت کے امین ہیں اور جہانِ عدم میں جا بسنے والے دوست شاعروں کا ذکر کرتے ہوئے سراپا تصویرِ غم دکھائی دیتے ہیں گویا مرزا غالب کی زبان میں کہہ رہے ہوں
سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
ان کا ایک مضمون دو غریب الوطن شاعر ہے جس میں افتخار نسیم افتی اور عدیم ہاشمی کی شاعری اور ان سے ذاتی دوستی کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ مضمون قلم کی سیاہی سے نہیں بلکہ خونِ دل سے لکھا گیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ اگر ہمارے ملک میں سماجی و معاشی انصاف ہوتا تو لوگ اپنا وطن چھوڑ کر کیوں دیارِغیر میں جا بستے اور زندگی میں بھی گمنام اور مرنے کے بعد بھی بے نشان ہوتے۔ کون ہو گا جو دیارِ غیر میں مرنا یا دفنایا جانا پسند کرے گا۔ افسوس صد افسوس ہم وطن رکھتے ہوئے بھی بے وطن ٹھہرے۔ شہنشاہِ ہند بہادر شاہ ظفر کو جب رنگون میں جلا وطنی میں دفن کر دیا گیا تو وہ اپنی قبر میں بھی اپنے اِس شعر کے ساتھ گنگناتا گیا ہو گا
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
انہوں نے اِن دو شاعروں کو ان کے جن اشعار کے آئینے میں پیش کیا وہ انتخاب بھی قابلِ داد ہے۔ افتخار نسیم افتی مرحوم کے چند شعر سنیے اور سر دھنیے
کٹی ہے عمر کسی آبدوز کشتی میں
سفر تمام ہوا اور کچھ نہیں دیکھا
سرکش ہیں اور اپنی حدوں سے بڑھے ہوئے
اتریں گے کب نہ جانے یہ دریا چڑھے ہوئے
سچ پوچھیے تو وجہ کوئی یاد بھی نہیں
اِک عمر ہو گئی ہے کسی سے لڑے ہوئے
انہوں نے عدیم ہاشمی کی شاعری میں بالخصوص ان کی مکالماتی غزل لکھنے کی عمدہ صلاحیت کا برملا اعتراف کیا ہے۔جیسے لندن میں شاعروں کے لیے قبرستان میں مخصوص گوشہ ہے، ڈاکٹر مقصود جعفری نے اسلام آباد قبرستان میں اہلِ قلم کے لیے گوش اہلِ قلم منختص کرنے کی تجویز دی ہے جس کی میں تائید کرتی ہوں۔ I/ 8 اسلام آباد کے قبرستان میں کبھی کبھی جا کر مجھے بیٹھنا اچھا لگتاہے۔ جہاں میں پروین شاکر، احمد فراز کی قبروں سے ہو کر منشا یادکی سیاہ ماربل والی نرگس کے پھولوں سے مہکتی قبر پر جاتی ہوں پھر جوش ملیح آبادی اور قدرت اللہ شہاب کی قبروں سے ہوتے ہوئے سب سے آخر میں ممتاز مفتی کے چرنوں میں جا کر بیٹھ جاتی ہوں اور ان سے مکالمہ کرتی ہوں۔ ڈاکٹر مقصود جعفری نے اس مضمون میں عدیم ہاشمی کے بھی چند خوبصورت اشعار نقل کیے ہیں۔
کٹ ہی گئی جدائی بھی، کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے، میرے بھی دن گزر گئے
تو بھی کچھ اور اور ہے، میں بھی کچھ اور اور ہوں
جانے وہ تو کدھر گیا، جانے وہ ہم کدھر گئے
ڈاکٹر مقصود جعفری جو شاعرِانسانیت بھی ہیں اور شاعرِہفت زبان بھی ان کی یہ کتاب ادبی تبصرے ادبی اور علمی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل کرے گی۔ یہ ادبی تبصرے، تجزئیے اور دیباچے بذاتِ خود ایک ادبی شاہکار ہیں۔ زبان و بیان کی چاشنی اور فکر و نظر کی گیرائی اور گہرائی نے اِس کتاب کو نہایت دلچسپ اور زندہ و پائندہ بنا دیا ہے۔ یہ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ میں تہہِ دل سے ان کو ایسی عمدہ کتاب لکھنے پر اور نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد کو اِسے شائع کرنے پر مبارک باد دیتی ہوں۔
( (یہ مضمون ادبی تبصرے کی تقریب رونمائی بتاریخ دسمبر بمقام احمد فراز آڈیٹوریم نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد میں پڑھا گیا)
٭٭٭