مسجد میں مسلمانوں کے جوتے چوری کرنے کی وارداتوں میں ایک دفعہ پھر اضافہ ہوگیا ہے، رات کی تاریکی میں جو حضرات تراویح پڑھنے مسجد آتے ہیں وہ ننگے پیر اپنے گھر واپس لوٹتے ہیں، گذشتہ اتوار کے دِن ایک صاحب جو تراویح پڑھنے آئے تھے جب اُنہیں پتا چلا کہ اُن کی پشاوری سینڈل کو کسی اور مسلمان نے اُڑادیا ہے تو اُن کے غصے کی کوئی انتہا نہ رہی، وہ چیخ چیخ کر دوسرے نمازیوں کو للکارتے ہوئے یہ کہنا شروع کردیا کہ کسی قبائلی کی سینڈل چوری کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ہر سینڈل پر اُس کا اور اُس کے باپ کا نام لکھا ہوتا ہے، بہرکیف نمازی کی آہ و بکا دیکھ کر ایک اور بزرگ آگے بڑھے اور نمازی کو یہ پیشکش کی کہ وہ ایک نیا آرام دہ جوتا اُنہیں خرید دیگا اور اُسے غصہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن نمازی کو کوئی زیادہ تسلی نہ ہوئی اور اُس نے کہا کہ اُس نے پشاوری سینڈل کو پاکستان کے لنڈی کوتل سے خریدا تھا ، اور اِس سے قبل بھی اُسے ہتھیانے کی دوسرے لوگوں نے کوششیں کی تھیں ، جن میں کسٹم اور پولیس کے اہلکار شامل تھے۔اُنہوں نے مزید کہا کہ اُس سینڈل کی خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ گدھے کے چمڑے سے بنائی گئی تھی، اور وہ اُسے پہن کر ایک مرتبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سے ملاقات کیلئے بھی گیا تھا جنہوں نے سینڈل کو اتنا پسند کیا تھا کہ وہ اُسے توشہ خانہ میں رکھنے کی پیشکش بھی کی تھی،وزیراعلیٰ نے اُسے یہ کہا تھا کہ اُن کے توشہ خانہ میں خرید و فروخت کیلئے بیرونی ممالک سے مالدار تاجر آتے ہیں اور شاید وہ اُس کی سینڈل کو منہ مانگی قیمت پر خرید سکتے ہیںاور اُس کی پرچی بنانے کی بھی کوئی ضرورت پیش نہیں آئے گی، کیونکہ یہ اندرونی معاملہ ہے تاہم اُس نے کہا کہ وہ اپنی پسندیدہ چیزوں کو فروخت کرنے کا قائل نہیں، گفتگو جاری تھی کہ دو اور نمازیوں نے یہ شور مچانا شروع کردیا کہ اُن کا جوتا بھی چوری ہوگیا ہے، یہ سُن کر بزرگ نمازی پیچھے ہٹ گئے اور کہا کہ بڑے پیمانے کی جوتا چوری کی وہ تلافی نہیں کر سکتے، تاہم سینڈل والے نمازی نے اُن کی منت سماجت شروع کردی اور کہنے لگا کہ وہ اُن کے جوتا خریدنے کی پیشکش کو قبول کرتا ہے لیکن بزرگ نے جواب دیا کہ اب بہت دیر ہوچکی ہے،مسجد سے جو اشیاء چوری ہوتی ہیں اُن میں جوتا، سینڈل، اسنیکر، چھتری، جیکٹ اور لیپ ٹاپ کمپیوٹر شامل ہیں تاہم ایک صاحب کی گاڑی بھی مسجد کے احاطہ سے چوری ہوگئی تھی، بعد ازاں پولیس آفیسر نے بتایا کہ دراصل گاڑی چوری نہیں ہوئی تھی بلکہ گاڑی جس شخص کی ملکیت تھی وہ اُسے وہاں سے اٹھاکر لے گیاتھااور وہ نہیں چاہتا تھا کہ گاڑی کے تنازع پر اُس کا مسلمانوں سے کوئی جھگڑا ہوجائے۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی صف میں گاڑی اور جوتا چور بھی کھڑے ہوتے ہیں، بہرحال یہ ایک اچھی مثال ہے کہ مسجد کے اندر گاڑی چور اور اُس کے مالک کے مابین ایک سمجھوتہ عمل میں آگیا ، اِس طرح کا سمجھوتہ مسلم اُمہ ا قوام متحدہ میں بھی کروا سکتی ہے، ایک اعلیٰ افسر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایک شخص نے مسجد سے چوری کئے ہوئے سامان کا ایک اسٹور کھولا ہوا ہے اور اُس کا نام اُس نے ” مال جنت ” رکھا ہے۔بہر کیف ہر خاص و عام کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مسجد کے اندر چوری کی واردات کا ہدف بننے والے صرف مرد حضرات نہیں ہوتے ہیںبلکہ اِس کا نشانہ خواتین بھی بنتی ہیں، ایک جوان لڑکی نے بتایا کہ مسجد سے باہر نکلنے کے دھکم دھکی میں اُس کا دوپٹہ کسی خاتون نے کھینچ لیا تھا اور وہ پھر کبھی بر آمد نہ ہوسکا، ایک دوسری خاتون نے انکشاف کیا کہ اُن کی گھڑی کوئی تجربہ کار چورنی لے اُڑی تھی، اور وہ بہت زیادہ خوفزدہ تھی کہ اُن کے شوہر کو جب پتا چلے گا تو وہ اُس پر سخت ناراض ہونگے، کیونکہ چند دِن قبل اُن کے شوہر کا جوتا بھی مسجد سے چوری ہوگیا تھا، یہ بات میرے مشاہدے میں ہے کہ پاکٹ ماراور جوتا چوروں سے نمازی آگاہ ہوتے ہیں، لیکن صرف مسجد کے احترام کی وجہ کر وہ اِسے نظرانداز کردیتے ہیں، اِس ہوشربا مہنگائی کے دور میں ہر خاص وعام کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ مسجد میں جا کر افطاری کرے، ہماری اسٹوریا کی ایک مسجد میں ہر جمعہ کی نماز میں مفت افطاری کی دعوت دی جاتی ہے لیکن عین افطاری کے وقت لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ مفت افطاری آج نہیں کل ہوگی اور آج ہر شخص کو دس ڈالر ادا کرنے پڑینگے، مسجد کی انتظامیہ نے بتایا کہ لوگ مسجد میں چندہ نہیں دیتے ہیں ، اسلئے اُن کے پاس کوئی اور چارہ نہیں رہ گیا ہے،مہنگائی نے عام لوگوں کی کمر کو جس طرح توڑ دیا ہے اُس کا اندازہ پاکستان میں ہر لمحہ ہوتا ہے۔نیویارک سے ایک پاکستانی نژاد امریکی جب کراچی کے شاہراہ فیصل پر واقع ایک مشہور ریسٹورنٹ میں اپنے تین دوستوں کو افطار ڈنر پر مدعوکیاتو اُس سے قبل اُنہوں نے بکنگ کرانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم کرلیا کہ کُل خرچ کی رقم اندازا” کتنی آئیگی، ریسٹورنٹ کے منیجر نے دس ہزار روپے بتائی، اُنہوں نے دس ہزار روپے کو فورا”امریکی ڈالر سے تقسیم کردیا ، رقم کوئی زیادہ نہیں بنتی تھی،وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ریسٹورنٹ پہنچ گئے اور سیر ہوکر افطار ڈنر تناول کیا لیکن جب ویٹر نے اُنہیں چیک تھمائی تو اُن کا ماتھا ٹھنک کر رہ گیا، کُل رقم ٹیکس لگا کر 45 ہزار روپے کی تھی، پاکستانی نژاد امریکی نے ہوشربا رقم پر فورا”
منیجر سے احتجاج کیا اور اپنی گفتگو کا حوالہ بھی دیا، منیجر نے اُنہیں یہ بتایا کہ اُس نے جو رقم اُنہیں بتائی تھی وہ چار افراد کیلئے نہیں بلکہ فی کس تھی لیکن اُس نے کراچی کی اعلیٰ مہمان نوازی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے رقم میں کٹوتی کرکے 45 ہزار سے 20 ہزار کردی۔