جب کوئی بھی چیز، نظام یا کام ان پڑھ یا دماغ سے خالی ہو اور انتظامیہ سے بے شعور لوگوں کے ہاتھ میں آجائے تو اس ملک کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے۔ یہ ہی حال ایک، ایسے ملک کا ہے جو برطانیہ نے ہمیں دیا تھا، اگر پرانی یادوں میں جائیں تو پاکستان کراچی سے پشاور اور لنڈی کوتل تک ایک پرسکون اور پرامن ملک تھا۔ سب خوش تھے اور آپس میں بھائی چارہ تھا لیکن آج یہ ملک چوں چوں کا مربہ ہوچکا ہے جو سمجھ سے باہر ہے۔کہ یہ کونسا اونٹ ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ،انڈیا کو بھی اُسی دن آزادی ملی تھی ہر چند کہ ابوکلام آزاد نے صاف لفظوں میں سمجھایا تھا کہ مہاجروں کے لئے مشکلات ہونگیں جو ہوئیں اور مہاجروں کا نام لیوا نہیں اپنوں نے دوسروں کے ساتھ مل کر کراچی کا تیا پانچا کردیا اور جنہوں نے کیا انہوں نے اپنے اندرون سندھ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
ایوب خان جیسے بھی آئے جو بھی لایا بحث اس کی نہیں لیکن جو آئندہ دس سال میں ملک کا وقار بڑھا دوسرے ممالک میں نام ہوا۔ ایران ترکی اور پاکستان نے مل کر معاہدہ کیا سب جانتے ہیں۔ وہ آخر تھا لیکن اسکے پاس مشیر تھے کہ اکبر کی یاد دلاتے تھے۔ ہر شعبہ میں ترقی ہوئی ٹیکسٹائل میں ہم نے جاپان کو پیچھے چھوڑ دیا۔ فنون لطیفہ ہر شعبہ میں آگے بڑھا۔ اسکولوں اور کالجوں میں طلباء کی سرگرمیاں عروج پر رہیں اور پھر بھٹو صاحب آئے جن کا نعرہ کچھ اور عمل کچھ تھا۔ ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا کر تباہی کی طرف قدم اٹھائے۔ امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں روس کو بھگانے کی کوشش میں گلی گلی کلاشنکوف اورAK47پھیلا دی گئی روس کے جانے کے بعد مجاہدین بیکار ہوگئے انہیں کوئی مصروفیت چاہئے تھی تو اس امریکہ نے انہیں دہشت گردی قرار دے دیا جو قدم جماتے جماتے ملک میں پھیل گئے۔ اسکولوں پر جملہ میں ہمارے161نوجوان بچے شہید کر دیئے گئے اور ہماری آرمی دہشت گردوں کی تلاش میں نکلتی رہی لیکن ان کا خاتمہ نہ ہوسکا۔ حکومتیں بدلی گئیں بینظیر پھر نوازشریف اور پھر عمران خان کے دور میں راحیل شریف اور باجوہ اور دوسرے جنرل جو مال بنا کر ملک سے بھاگ لئے۔ سپریم کورٹ نے پاکستان کو تباہ اور عوام کو بے حال کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ جنرلز کے اشاروں پر عمران خان کی ساڑھے تین سال حکومت کو امریکہ کے اشارے پر گرا کر اُسے اڈیالہ جیل میں بند کردیا جو ابھی تک جیل میں ہے اور جس پر186جرم عائد کئے گئے ہیں اور ان سب کے پیچھے صرف ایک شخص کا نام آتا ہے جس کا نام عاصم منیر ہے بدقسمتی سے یہ شخص حافظ قرآن ہے اور اپنی عقل کے مطابق ہی عوام کو کفاّر اور دشمن سمجھتا ہے اور آیات پڑھ پڑھ پھونکتا رہتا ہے دوسرے معنوں میں منافقت پھیلاتا ہے اور اسے بتانے والا کوئی نہیں اس کا منہ بند کرنے والا کوئی نہیں ہر چند کہ مولانا فضل الحق اس ہی کے اشارے پر مدرسے کے23.25ہزار لوگوں کی دھمکی بھی دیتے رہتے ہیں کبھی اس شخص نے کوئی عقل یا درست بات نہیں کی۔ گاہے بگاہے کراچی سے پنڈی تک کے جاہل۔ اور سزا یافتہ ڈاکو لیٹر لے جمع ہوکر اسکے ہاتھ پائوں چومتے ہیں۔ یہ تماشہ عرصہ سے جاری ہے اور اب اس کی نگرانی عاصم منیر کر رہا ہے۔
دوسری جانب آرمی جنرلز نے سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں اپنے لوگ پھیلا دیئے ہیں عاصم منیر کے لئے، محسن نقوی اور عطاتارڑ کے علاوہ ثناء اللہ ناکافی تھے۔ سوشل میڈیا پر دیکھیں تو اُن میں فوج کے ہی نوجوان آکر جس کو چاہے ڈوب مرنے کا پیغام دیتے ہیں اور ان کی عمریں25سال سے زیادہ نہیں ایک ایسے ہی فوجی جوان نے اپنی شان بڑھانے یا سویلین کے مزاح اور طنز کو سمجھنے کی بجائے کھری کھری سنا ڈالیں۔ اور انور مقصود کو ڈوب مرنے کا مشورہ دے دیا۔ وہ یہ بھول گیا کہ سویلین اور فوجی میں فرق ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے ماں باپ بھی پاکستان بننے سے اب تک فوج میں شامل مزے اڑا رہے ہیں۔ انٹر پاس کیا اور آسانی سے فوج میں شامل کیا یہ سوچ کر فوج میں جاتے ہیں کہ ضرورت پڑی تو جان دینی ہوگی انہیں معلوم ہے جنگ نہیں ہوگی اب اس چوزے سے پوچھے سرحدوں پر جو شہید ہوتے ہیں بلاکسی سبب ان کی تعداد کیا ہے اگر چھ لاکھ کی فوج میں چند اپنی جان سے جاتے ہیں جس کا ہمیں ملال ہے تو یہ اتفاق ہے۔ ورنہ ہماری بہادر فوج نے ڈھاکہ کے میدان میں ہتھیار ڈالنے کی تاریخ لکھ دی ہے جو بھلائی نہیں جاسکتی۔ اور اس کی ضرورت نہ ہوتی اگر عقل سے کام لیتے۔ لیکن ان جنرلوں کی عقل گھاس چرنے گئی ہوتی ہے آپ سب جانتے ہیں کہ عاصم منیر کا مشن کبھی یہ نہیں تھا کہ ملک کو پرامن بنائیں اور نہ ہی دوسرے جنرلز عقل کا استعمال کرتے ہیں ان میں کبھی کوئی مستقل مزاجی تھی اور نہ ہوگی اور جو اچھے عوام کے ہمدرد جنرلز تھے جن میں بلوچستان میں تعینات جنرل سرفراز تھے وہ ہیلی کاپٹر کے حادثے میں مارے گئے عجب اتفاق ہے نا۔ جنرل ضیاء الحق بھی ہیلی کاپٹر کے حادثے میں مارے گئے تھے۔ ہمیں جنرل سرفراز کا افسوس ہے ایک اور جنرل نام کما کر دوسرے ملک پدھارے انکا نام راحیل شریف ہے جو اس وقت اسلامیNATOکے سربراہ ہیں جن سے کوئی واسطہ نہیں کہ یہ سب نئی پور کے انڈے گندے کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
اب پھر عاصم منیر پر آتے ہیں جو ایک نہایت بزدل انسان ہے اور اس کا دماغONE TRACK ایک لائن پر سوچنے والا دماغ ہے۔ کہ امریکہ نے کہہ دیا عمران کو ہٹائو اور کسی اور کو بٹھائو۔ ماشاء اللہ اس نے اب سب کو خوش آمدید کہا جو برسوں سے آرمی کو گالیاں اور دھمکیاں دیتے رہے ہیں ان میں زرداری، نوازشریف، شہبازشریف، مریم نواز شریف اور انکے چیلے لپاڑے لوٹ مار کرکے بھاگے ہوئے لوگ ہیں۔ امریکہ تو چاہتا ہے کہ پاکستان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے یہ انڈیا کا مشن ہے کہ کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ ملک چوں چوں کا مریہ بن گیا ہے نہ ہی تھوکا جاسکتا ہے اور نہ ہی نگلا جاسکتا ہے۔ جو آرمی جنرلز اور اُن کی نسلوں کے لئے آمدنی کا بیش بہا خزانہ ہے۔ عمران خان نے کہا ہے انکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے سوائے ہوا کے سب ان کی مصنوعات ہیں اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ بیروں ملک میں بیٹھے پاکستانی امریکہ اور انگلینڈ کو بتا رہے ہیں انتظار کیجئے٢٠ جنوری کا یہ صدر ٹرمپ کا امتحان ہے کہ وہ ہندو کی سنتے ہیں یا پاکستان کی! ۔
٭٭٭٭٭٭