اسٹیبلشمنٹ کب سبق سیکھے گی ؟

0
28

اسٹیبلشمنٹ کب
سبق سیکھے گی ؟

عراق، مصر، لیبیا ، بنگلہ دیش میں عوامی انقلاب، جبراور ظلم کے نظام کی تباہی پاکستان کی ظالم حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو جھنجھوڑنے کے لیے سبق آموز ہے اور اب شام میں 50سالہ جبر اور آمریت کے دور حکومت کے خاتمے سے پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ جب ظلم سے حد سے بڑھتا ہے تو فنا ہو جاتا ہے ، اب پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس ظلم کو حد سے بڑھانے پر کاربند ہیں اور طاقت کے نشے میں ایسے” سرمست ہاتھی” کی طرح بن گئے ہیں جوکہ کسی کی کوئی بات سننے کی بجائے پائوں تلے روندنے کو ترجیح دے رہا ہے ۔ صرف ایک ہفتہ قبل تک شام کے حکمران بشار الاسد کا تختہ اْلٹنا ناقابل تصور تھا۔ اس وقت باغیوں نے شمال مغربی شام میں ادلب کے گڑھ سے اپنی جارحانہ مہم شروع کی تھی۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ ان کے والد نے 29 سال تک ملک پر حکمرانی کی تھی اور اپنے بیٹے کی طرح ملک پر آہنی کنٹرول رکھتے تھے۔بشار الاسد کو وراثت میں ہی ایک ایسا ملک ملا جہاں حکومت کا کنٹرول سخت رہتا تھا اور ایسا سیاسی نظام تھا جس کے بارے میں ناقدین مخالفین کو دبانے کا الزام لگاتے تھے۔ کسی قسم کی اپوزیشن کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔پہلے یہ امید تھی کہ چیزیں مختلف ہوں گی، سب کام شفافیت سے ہوں گے اور ظلم کم ہوگا۔ مگر یہ توقعات دیر تک قائم نہ رہ سکیں۔اسد کو ہمیشہ ایک ایسے آدمی کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے اپنی حکومت کے خلاف 2011 میں پْرامن مظاہرین پر تشدد کر کے انھیں منتشر کیا۔ اس صورتحال نے خانہ جنگی کو جنم دیا جس میں پانچ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور 60 لاکھ بے گھر۔روس اور ایران کی مدد سے اسد باغیوں کو کچل کر اپنے دور اقتدار کو وسعت دینے میں کامیاب رہے۔ روس نے اپنی فضائی طاقت استعمال کی جبکہ ایران نے شام میں اپنے فوجی معاون بھیجے۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ نے شام میں تربیت یافتہ جنگجو تعینات کیے۔مگر اس بار یہ سب نہیں ہو سکا۔ شام کے اتحادی اپنے خود کے امور میں مصروف تھے اور انھوں نے شام کو تنہا چھوڑ دیا۔ ان کی مدد کے بغیر شامی دستے باغیوں کو روکنے میں ناکام رہے۔ بعض مقامات پر دستوں نے باغیوں کو روکنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ان باغیوں کی قیادت سخت گیر اسلامی گروہ” ہیئت التحریر الشام” نے کی ہے۔پہلے باغیوں نے حلب پر قبضہ کیا جو ملک کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ انھیں بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا پھر ”حما ”اور کچھ دن بعد” حمص” جیسے اہم شہر بھی باغیوں کے ہاتھوں میں چلے گئے،دمشق تنہا رہ گیا تھا، یہ صرف کچھ گھنٹوں کی بات تھی۔ یوں باغی دارالحکومت میں داخل ہوئے جو اسد کی طاقت کا گڑھ تھا۔بلاشبہ یہ اسد خاندان کے 50 سالہ دور کا خاتمہ ہے۔ اس تبدیلی خطے میں طاقت کے توازن کو بدل دے گی۔یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو بارہا فضائی کارروائیوں میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان تمام گروہوں کے علاوہ عراق میں ملیشیا اور غزہ میں حماس، ان سب کی مدد سے خطے میں ایران کا ‘مزاحمت کا محور’ تشکیل پاتا تھا مگر اب اس نیٹ ورک کو سنگین نقصان پہنچا ہے۔اسرائیل کی جانب سے اس نئی صورتحال کا خیر مقدم کیا جائے گا کیونکہ یہ ایران کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے۔کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ترکی کی مرضی کے بغیر یہ سب ممکن نہیں تھا۔ ترکی شام میں باغیوں کی حمایت کرتا ہے مگر اس نے ہیئت التحریر الشام کی پشت پناہی کے الزام کی تردید کی ہے۔کئی لوگ اسد کی بے دخلی پر خوش ہیں لیکن آگے کیا ہوگا؟ ہیئت التحریر الشام کی جڑیں القاعدہ سے ملتی ہیں اور اس کا ایک پْرتشدد ماضی ہے۔کئی برسوں کے دوران اس گروہ نے خود کو شام کی ایک قومی قوت کے طور پر ظاہر کیا ہے۔ ان کے حالہ پیغامات میں سفارتی اور مفاہمتی سوچ جھلکتی ہے مگر اس کے باوجود کئی لوگ پوری طرح مطمئن نہیں، انھیں تشویش ہے کہ حکومت گِرانے کے بعد وہ آگے کیا کریں گے؟شامی عوام ایک ظلم کے نظام سے نکلنے کے بعد دوسرے میں داخل ہونے سے کترا رہے ہیں لیکن اس وقت شام میں کسی نئی جمہوری حکومت کے قیام کا کوئی امکان نہیں ہے ، ملک اس وقت شدت پسند گروہوں کی پہنچ میں آگیا ہے ، اگر شامی صدر بشار الاسد ظلم کے نظام کو ختم کر کے عوام کی حمایت اختیار کرتے تو شاید آج حالات یکسر مختلف ہوتے کیونکہ حکومتی ظلم سے ستائے عوام نے شدت پسندوں کو روکنے کی بجائے ان کی ہر طرح سے مدد کی ہے یہی وجہ ہے کہ شدت پسند جماعت کو بغیر کسی مزاحمت کے اتنی بڑی کامیابی ملی ، پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں جب عوام ظلم سے اکتا جاتے ہیں تو پھر ایسے ہی دنوں اور گھنٹوں میں اقتدار تبدیل ہوتے ہیں اور پانی پلوں سے نکلتے پتہ بھی نہیں چلتا ،اب بھی وقت ہے! حکومت اور اسٹیبشلمنٹ ملک میں سیاسی استحکام ، پائیدار امن کے لیے بانی پی ٹی آئی کو رہا کرے اور عوام کو پر امن احتجاج کا حق فراہم کیا جائے جوکہ ان کا آئینی ، اخلاقی ، قانونی حق ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here