محفلِ نظم حکومت ، چہر زیبائے قوم !!!

0
11

پچھلے پچاس ساٹھ سال سے، پاکستانی نژاد امریکیوں کیلئے یو ایس کانگریس کے ساتھ رابطوں کی اہم وجہ مسئلہ کشمیر اور بھارت کی ریشہ دوانیاں ہی رہی ہیں۔ پاکستان کے مقتدر اداروں کے ساتھ غیر مشروط تعاون، ان کیلئے حب الوطنی کا ایک اہم پیمانہ ہوتا تھا۔ مذہبی سیاسی جماعتیں جب امریکی حکومتوں کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے خلاف احتجاج کرتی تھیں تو یہاں ہماری امریکی کمیونٹی ہمیشہ امریکہ کو ہی حق پرسمجھتی تھی۔ مجھے یاد ہے جب سید منور حسن صاحب نے امریکہ اور اس کی آلہ کار پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا تھا تو امریکہ میں رہائش پذیر پاکستانی کمیونٹی نے بہت برا منایا تھا۔ ورلڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کیلئے پاکستانی مقتدر حلقوں نے ایک پڑوسی برادر ملک افغانستان کو تہس نہس کردیا لیکن پاکستان فرسٹ کے مصنوعی نعرے لگا کر ہمارے پڑھے لکھے امریکی پاکستانی دوست بہت مطمئن تھے کہ امریکی ڈرون ہی اس مسئلہ افغانستان کا بہترین حل ہیں۔ کچھ جرنیلوں، ججوں، تاجروں اور سیاست دانوں نے خوب ڈالر کمائے اور اپنے پڑوسیوں پر اتنا ظلم کیا کہ آج پاکستان کے خلاف نفرتوں کی ایک پوری فصل تیار ہوچکی ہے جسے ہماری کئی نسلیں کاٹتی رہیں گی۔حالات بدلے اور اللہ تعالی کی کسی حکمت کی بدولت ڈونالڈ لو جیسے کمزور اور جھوٹے لوگ، امریکی انتظامیہ کا حصہ بننا شروع ہوگئے۔ کچھ عرصے کے عروج کے بعد امریکہ چونکہ اب زوال کا شکار ہے تو اس کے ادارے بھی اب اپنی حیثیت کھو رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے امریکی کانگریس کی ایک سب کمیٹی میں جب پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کا مسئلہ زیرِ بحث آیا تو حیرت ہوئی کہ پاکستانی نژاد امریکی اور صد فی صد کمیٹی ممبران، پاکستان میں جمہوری عمل میں مداخلت ہونے پر متفق تھے۔ تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ، پاکستانی امریکیوں کی کاوشوں سے کانگریس نے اس طرح کی سماعت منعقد کی۔ماضی میں، امریکی انتظامیہ تو صرف ایک فون کال کرکے ہمارے جرنیلوں کو احکام دینے کی عادی تھی۔ سیاسی لوگ بے چارے تو اس قسم کی فون کال کیلئے بھی ترستے رہتے تھے۔ آخر کیا تبدیلی آگئی ہے؟ سب کمیٹی کی کاروائی سن کر اندازہ ہواکہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کیلئے ہونے والی یہ سماعت تو دراصل پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے۔ ڈانالڈ لو خاصی پریشانی سے جھوٹ بولنے کی کوشش کر رہے تھے حالانکہ کمیٹی کے ڈیموکریٹس، شریکِ جرم ہونے کی وجہ سے، اس کیلئے خاصی راہ ہموار کرتے رہے۔ستر کی دہائی تک تو پاکستانی امیگرنٹس، زیادہ تر وطن واپسی کے خوابوں میں رہتے ہوئے، امریکی سیاسی اداروں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے لیکن اسی اور نوے کی دہائیوں میں مقامی مسائل کے حل کیلئے ان کی کوششیں شروع ہوگئی تھیں۔ نائن الیون نے تو صورتحال یکسر ہی تبدیل کردی۔ امریکہ کو رول ماڈل سمجھنے والے سادہ لوح لوگوں کو اس نظام کی کمزوریوں کا ادراک اسی وقت ہی حاصل ہونا شروع ہوا۔ لیکن پھر بھی پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکہ کے زہریلے کردار کا پتہ کافی عرصے کے بعد بھی بہت ہی کم لوگوں کو چلا۔ دو سال پہلے جب خان صاحب نے پاکستانی خارجہ پالیسی کو آزاد کرنے کی کوشش کی تو امریکہ بہادر نے بڑی لاپرواہی سے، ڈونالڈ لو کے ذریعے، رجیم چینج آپریشن کا حکم دے ڈالا۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے تو خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اس کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ جرنیل یہ معمولی سا کام صحیح طریقے سے انجام نہیں دے سکیں گے۔ ان کا ٹریک ریکارڈ تو بہت زبردست تھا۔ کانگریس کی سب کمیٹی کی اس سماعت سے بھی لگ رہا تھا کہ ہمارے نمائندے صرف ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہے ہیں۔ دو تین کے علاوہ باقی سب کو اس مسئلہ کی گہرائی کا اندازہ ہی نہیں۔ جس رعونت کے ساتھ انہوں نے چین اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر تبصرے کئے وہ واقعی قابلِ اعتراض حد تک نامعقول تھے۔
باقی دنیا کی طرح، پاکستان کے زمینی حقائق بھی اب بدل چکے ہیں۔ نوجوانوں کی سوچ و فکر اپنے بزرگوں سے بڑی حد تک مختلف ہے۔ سوشل میڈیا نے روایتی میڈیا کو شکست دے دی ہے۔ عمران خان نے اپنی طلسماتی شخصیت سے ہر طبقہ فکر اور ہر ایج گروپ کو اپنا گرویدہ بنایا ہوا ہے۔ فروری کا معجزاتی نتیجہ، فروری کے سانحہ سے شکست کھانے کو تیار نہیں۔ خیبر پختونخواہ اور اوورسیز پاکستانی، اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول سے بالکل باہر نظر آتے ہیں۔ مذہبی جماعتیں، خان صاحب کی طرف وزن ڈالنے کیلئے تیار ہیں۔ نون لیگ پر نواز خاندان کی گرفت انتہائی کمزور لگ رہی ہے۔ پی پی پی کا بھی تقریبا یہی حال ہے۔ کرپشن زدہ جرنیل اپنی اخلاقی حیثیت کھو چکے ہیں۔ قاضی صاحب نے ججوں اور عدلیہ کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملادی ہے۔ ان حالات میں امریکہ کیلئے بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینا کوئی آسان فیصلہ نہیں۔ نوے فیصد سے بھی زیادہ پاکستانی اس وقت خان کی سائیڈ لے چکے ہیں۔ امریکہ کی اسی طرح کی غلطی کی وجہ سے، ایران، پینتالیس سال بعد بھی ورلڈ آرڈر سے باہر بیٹھ کر، سب کیلئے ایک دردِ سر بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں وہی غلطی دہرانا کوئی دانشمندی نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی ایک مثر اور معتبر طاقت ہے۔ وہ اگر منظم ہو جائے تو فلسطین اور کشمیر جیسے پرانے مسائل کا حل بھی نکل سکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ امریکہ کی مقامی سیاست میں امریکی بن کر حصہ لے۔ اب تک ہم زیادہ تر فارن ایجنٹ کی طرح لابی کرتے ہوئے نظر آتے رہے ہیں۔ یہ رویہ اب تبدیل کرنا ہوگا۔
وطنِ عزیز کی موجودہ صورتحال پر راہب میترے صاحب کے یہ اشعار خوب صادق آتے ہیں۔
پھیلا ہوا جو چاروں طرف انتشار ہے
آئین سے ہماری سیاست کو عار ہے
یا رب ترا نظام کہیں ایک سا نہیں
کوئی ہے شہریار کوئی خاکسار ہے
آئین و عدلیہ پہ بھروسہ کسے ہے اب
بلڈوزروں پہ جب کہ حکومت سوار ہے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here