”صیہونی ریاست ،یورپ کا ناجائز بچہ”

0
138
شبیر گُل

اسرائیل یورپ کا ناجائز اور بے لگام بچہ ہے۔ تمام بڑے ممالک جس کی پْشت پر ہیں او آئی سی اور عرب لیگ کا کردار یونائیٹڈنیشن کی طرح ہمیشہ سے مایوس کن رہا ہے، تنازعہ فلسطین (بیت المقدس )الشیخ جرّاح۔۔ تنازعہ کیا ہے؟قبلہ اول پر آنسو گیس کا دھواں چھایا ہوا ہے اور سارا مشرقی بیت المقدس ، غزہ اور فلسطین ، بموں ، فضائی حملوں ،گولیوں کی تڑتراہٹ سے گونج رہا ہے۔ رات کو مسجد اقصیٰ کی بجلی بند کرکے خوفناک چمک اور بھیانک آواز پیداکرنے والے Sound Grenadesپھینکے جاتے ہیں۔ گھپ اندھیری، کھچاکھچ بھری مسجد میں قیامت خیز دھماکوں سے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوتے ہیں لیکن اس خوفناک صورتحال میں تین اور چار سال کے بچے بھی ‘القدس لنا’ یعنی القدس ہمارا ہے کہ نعرے لگانے سے باز نہیں آتے۔ آج چند سطور حالیہ کشمکش پر جسے شیخ الجرّاح تنازعہ کہا جارہا ہے۔ قیامِ اسرائیل کے وقت بیت المقدس مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatumقرارپایا۔ گنبد صخریٰ، مسجد اقصیٰ، دیوارِ گریہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت اہم متبرکات اور مقدسات مشرقی جانب دیوار سے گھرے ایک مربع کلومیٹر کے قریب رقبے میں ہیں جنھیں بلد القدیم یا Old City کہا جاتا ہے۔ اولڈ سٹی اور مضافات پر مشتمل پورا علاقہ مشرقی یروشلم یا القدس الشرقیہ کہلاتاہے۔مشرقی بیت المقدس میں مسلمانوں اور مسیحیوں کی اکثریت ہے، جبکہ مغربی بیت المقدس میں یہودی آباد ہیں۔ پہلی عرب اسرائیل جنگ 15 مئی 1948 کو برپا ہوئی، جس میں عرب فوج کی کارکردگی انتہائی خراب تھی لیکن اردنی افواج نے مشرقی بیت المقدس کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرالیا جبکہ مغربی بیت المقدس بدستور اسرائیل کے پاس رہا۔ جون 1967کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے شام سے گولان کی پہاڑیاں، اردن سے مشرقی بیت المقدس سمیت غرب اردن اور مصر سے صحرائیسینائی کا بڑا علاقہ چھین لیا۔ جنوبی لبنان کے کچھ علاقے پر بھی اسرائیل نے قبضہ جمالیا۔مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کرتے ہی اسرائیل نے اسکے مشرقی ومغربی حصے باہم ضم کرکے یروشلم کو اپنا دارالحکومت قراردے دیا۔ اسرائیل کے اس فیصلے کے خلاف سلامتی کونسل میں بات اٹھی لیکن امریکہ اور برطانیہ نے ویٹو کرکے قرارداد کو غیر موثر کردیا۔ عربوں کی اشک شوئی کیلئے کہا گیا کہ عالمی برادری مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا حصہ تصور کرتی ہے۔اسرائیلی انتہا پسندوں کی نظریں شروع ہی سے مشرقی بیت المقدس پر تہیں۔ یہاں کا شیخ جراح محلہ سو فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ شیخ جرّاح (سرجن) سلطان صلاح الدین ایوبی کے ذاتی طبیب تھے جنکے نام پر 1865میں یہ محلہ آباد ہوا، یعنی اسرائیل کے قیام سے 83 سال پہلے۔شیخ جرّاح محلے کے خلاف کاروائی کا آغاز1972 میں ہوا جب صیہونی قابضین کے ایک گروہ نے مقامی عدالت کو دہائی دی کہ پہلے اس محلے میں یہودی آباد تھے جنھیں اردنی قبضے کے دوران یہاں سے جلاوطن کیاگیا لہٰذا محلے کو قابضین سے واگزار کرایا جائے۔ استغاثہ نے اپنی درخواست میں کہا کہ 1956 میں حیفا اور جفہ سے آنے والے 28 فلسطینی خاندان یہودیوں سے چھینی زمینوں پر آباد کئیگئے۔ الجزیرہ کے مطابق مقدمے کے اخراجات امریکی امداد سے ادا کئے گئے۔ عدالت کے حکم پر 2002 میں یہاں سے 43 فلسطینی مکانات خالی کرالئے گئے۔ چار سال پہلے عدالت نے دو مزید خاندانوں کو بیدخلی کے نوٹس تھمادئے۔ اب کہا جارہا ہے کہ یہاں آباد لوگوں کے پاس قبضے (لیز) کی قانونی دستاویزات نہیں تھیں لہٰذا جائیداد بحقِّ سرکار ضبط کرکے ‘شفاف نیلامی’ کے ذریعے اسرائیلیوں کو فروخت کردی گئی۔ ‘خریداروں’ نے پراپرٹی پر قبضے کیلئے عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔ سائلین کا دعویٰ بڑا مضبوط ہے کہ ادائیگی براہ راست سرکار کو کی گئی ہے اور تعمیر کیلئے بینکوں سے قرض منظور ہونے کے بعد تعمیراتی اداروں سے معاہدے بھی ہوچکے ہیں۔ متاثرین نے نقشہ نویس (Cartographer) خلیل توفیق کی خدمات حاصل کیں جس نے انقرہ کے Archive سے عثمانی دور کی لیز دستاویزات عدالت میں پیش کیں لیکن یروشلم کے ضلعی جج نے انھیں مسترد کر تے ہوئیدرجنوں فلسطینیوں کو گھر خالی کرنے کا حکم دیدیا۔ اسرائیلی وزارت دفاع کیمطابق یہاں آباد لوگوں کوبیدخل کرکے غرب اردن کے مہاجر کیمپ منتقل کردیا جائیگا اور اس مقام پر اسرائیلیوں کیلئے 530 مکانات اور شاپنگ سینٹر تعمیر ہونگے۔اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت کا آغاز 10 مئی کو ہونا تھا لیکن ہنگاموں کی وجہ سے کاروائی ملتوی کردی گئی۔ شیخ جرّاح محلے میں اسرائیلی بستیوں کے قیام سے ہزاروں فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کا صدمہ اپنی جگہ لیکن اس سے بڑا ڈر یہ ہے کہ اگر نسل پرست، مشرقی بیت المقدس سے مسلمان بستیاں ختم کرکے یہاں اسرائیلیوں کو آباد کرنے میں کامیاب ہوگئے تو القدس اور مسجد اقصیٰ کا تشخص بری طرح متاثر ہوگا۔ معمولی سی بد امنی پر باہر سے آنے والے فلسطینیوں کا قدیم شہر میں داخلہ بند کردیا جاتا ہے۔ اس صورت میں مشرقی یروشلم کے مسلمانوں کے دم سے ہی مسجد اقصیٰ آباد رہتی ہے۔ اگر یہ آبادی اجڑ گئی تو خاکم بدہن اللہ کا یہ قدیم گھر بھی و یران ہوسکتا ہے۔ماضی میں تلاشِ آثارِ قدیمہ کے نام پر مسجد اقصیٰ کے انہدام کی کئی کوششیں کی گئیں جسے یہاں آباد مسلمانوں نے ناکام بنایا۔پاسبانوں کی بیدخلی کہیں بنتِ کعبہ کی بیحرمتی کی پیش بندی تو نہیں؟ آج مسلم اْمّہ کی لیڈر شپ انتہائی ڈرپوک،بے شرم اور بزدل ہے۔ عرب اپنی عیاشیوں سے اپنی ساکھ کے ساتھ ایمان بھی کھو چکے ہیں۔ مصر،عراق، سعودیہ عرب کا کردار انتہائی منافقانہ ہے۔ عالمی برادری، عرب لیگ اور او آئی سی کو اسرائیلی بربرئیت نظر نہیں آرھی۔ اسرائیلیوں کے فضائی حملوں میں پچاس فلسطینی جان بحق ھو چکے ہیں۔ فضائی حملوں میں ایک ہزار فلسطینی زخمی ہیں۔ غزہ کی پٹی پر یہودیوں نے فلسطینیوں کی گاڑیوں کو آگ لگادی۔ جس پر فلسطینیوں نے بھی انکی گاڑیوں کو آگ لگائی، ویسٹ بنک، غزہ کے علاقوں میں گلسطینی اور یہودی آمنے سامنے ہیں۔ جنگ کا آغاز اسرائیل نیمسجد الاقصیٰ پرحملہ کر کیکیا،، غزہ اورفلسطین کیدیگر علاقوں میں عام شہریوں کو شہیداور زخمی کیا جن میں بڑی تعدادبچوں کی ہے،
جوابی حملے میں فلسطینی حریت پسندوں نے اسرائیل اوریہودیوں کی اہم تنصیبات کوشدیدنقصان پہنچایا،، یہ کامیابی سنی شیعہ اتحادو اشتراک کانتیجہ ہییادرکھیں اسرائیل کی چیخیں بتارہی ہیں وہ ناقابل شکست نہیں طاقت صرف اللہ کی ہے۔ اسرائیل کا خودکار جدید دفاعی نظام آئرن ڈوم راکٹ حملوں کوروک نہیں سکافلسطینی حریت پسندوں کی جانب سے48گھنٹوں میں1000راکٹ فائرہوئے400راکٹ مطلوبہ اہداف پرپہنچے اسرائیل کانقصان کیاہوا؟ یہ بات فیس بک پر پھیلائی جا رہی ہے کہ فلسطینی حملیسیاسرائیل کا نقصان نہیں ہواتوسنئے ابابیلوں کے کنکروں سے اسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کیاشتراک سیقائم کردہ 80کروڑڈالرکی آئل ریفائنری تباہ ہوئی عسقلان کابجلی گھر،12 بڑی عمارتیں،ایک پائپ لائن، عسقلان کی بندرگاہ،ایک فوجی چھاونی تباہ ہوئی۔ اسرائیل خوفزدہ نہیں،توکیوں؟ 50 فیصد اسرائیلی زیرزمین پناہ گاہوں میں رات بسر کرنے پر مجبورہیں؟ اسرائیلی حکومت نے تل ابیب میں سارے دفاترزیرزمین کیوں منتقل کردئیے؟ 5000 ریزروفوج کیوں طلب کرلی؟ بین الاقوامی پروازیں کیوں معطل کردی گئی ہیں؟ یہودی مسجد میں آگ لگا کر ناچ رہے تھے۔ جس سے مسلمانوں کے خون نے جوش مارا۔ حماس نے کئی ہزار چھوٹے راکٹوں سے حملہ کرکے اسرائیلی دھرتی ہلا کر رکھ دی۔ اسرائیل ٹائمز کے مطابق حماس نے انکی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ حماس اور خوب اللہ نے کہا ہے کہ اسرائیلیوں سن لو،اب اگر ھمارے بچوں کو مارو گے تو ہم تمہارے بچوں کو مار ینگے۔ یمن کے حوثی باغیوں نے کہا ہے کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ ہم بیت المقدس اور فلسطین کے لئے جنگی کے لئے تیار ہیں۔ اسرائیلی آرمی چیف نے کہا کہ اسرائیل انڈر اٹیک ہے۔ ظالم اسرائیل کو مظلوم نہتے فلسطینیوں نے ناکوں چنے چبوا دے۔ اسرائیلی دارالحکومت دھماکوں سے لرز گیا۔یہودیوں نے تل ادیب سے بھاگنا شروع کردیا۔چند یہودیوں نے کہا کہ راکٹوں کے حملے انتہائی خطرناک ہیں، جس سے انکے بچے غیر مخفوظ ہیں۔ ایک یہودن نے کہا کہ ھمارے بچے خوفزدہ ہیں اور انہیں بچے مرنے کا خدشہ ہے۔ کیا فلسطینیوں کے بچے انسان نہیں۔ کیا انکی مائیں نہیں۔ مسلم اْمّہ میں اس وقت اتحاد اور غیرت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے حکمران مقبوضہ علاقوں اور اسلام کی حرمات کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ واضح اور جامع احکامات پر عمل کرنے سے منہ موڑے ہوئے ہیں، چاہے معاملہ فلسطین کی مبارک مقبوضہ سرزمین کا ہو یا مقبوضہ کشمیر کا، حتیٰ کہ ناموس رسالت ۖ کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو۔رسول اللہۖ نے فرمایا “ایسے کام میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں جو اللہ کی نافرمانی والا ہو”(بخاری ،مسلم) آج ظلم وستم کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے اور ان حکمرانوں کی طرف سے صرف مجرمانہ خاموشی نظر آتی ہے۔ ایسے میں ہمیں اور افواج میں موجود صلاح الدین ایوبی کے بیٹوں کو اِن حکمرانوں کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لینا ہو گا ورنہ ہم بھی روزِ محشر ان حکمرانوں کے گناہوں میں برابر کے شریک ہوں گے۔ آرمی چیف جنرل باجوہ صاحب جس طرح خانہ کعبہ اور مسجد نبویۖ کی حفاظت کے لئے پاکستان آرمی کے دستے ہر وقت موجود ہیں اس طرح مسجد اقصیٰ قبلہ اول کی حفاظت کے لئے بھی پاک فوج کا ایک بریگیڈ (5000) فوجی بھجوائے جائیں کیونکہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت بھی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اگر یو این مشن میں پاکستان آرمی کے فوجی دستے امن قائم کرنے کے لئے دوسرے ممالک میں بھیجے جا سکتے ہیں تو مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لئے کیوں نہیں؟ اب تو فلسطین کے نہتے لوگوں نے اکٹھے ہو کر پاکستان آرمی کا نام لے کر مدد کو پکارا ہے۔ جب آپ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے پاکستان آرمی کے فوجی بھجوائیں گے تو ترکی بھی فوجی دستے بھجوانے کے لئے تیار ہے۔ آپ پاکستان کے 22 کروڑ مسلمانوں کے جزبات دیکھ لیں۔ تمام 22 کروڑ مسلمان ایک ہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ یہودی کتوں سے مسجد اقصیٰ کو بچانے کے لئے پاکستان آرمی کے دستے فوراً بھجوائے جائیں۔ اگر اسرائیل کسی قسم کی رکاوٹ ڈالتا ہے تو یہ اعلان کریں کہ ہمارے میزائیل اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے تیار ہیں۔ اس اعلان کے بعد اسرائیل چوں بھی نہیں کرے گا۔ سب حکمران، امریکہ ،یورپ اسرائیل کے ساتھ ہے۔ تمام بڑے کارپورٹ گروپ اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ ہم ہیں کہ اپنی جڑیں خود ھی کاٹ رہے ہیں۔ پینتیس کڑوڑ عرب جو ایک زبان بولنے والے ہیں۔ اسرائیل کے گرد حصار ہیں۔ لیکن بے غیرتی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ اسی لاکھ کی آبادی والا اسرائیل۔ پینس کڑوڑ پر بھاری ہے۔ غیرت ایمانی کا فقدان ہے۔ کہ ایک ارب ستر کڑوڑ مسلمان خاموش تماشائی بن کر اپنے بہن بھائیوں کا قتل عام دیکھ کر اسرائیل کو بد دعاؤں سے آگے نہیں بڑھ رہے۔ مسلمانوں کے تین مقدس مقامات، بیت اللہ، مسجد نبوی اور بیت المقدس ہیں،جن کو بچانا ہمارا فرض اور تقاضاغیرت ایمانی بھی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here