حضرت نوح کے پڑپوتے عملاق کی اولادیں سب سے پہلے سرزمین مدینہ پر پہنچیں اور یہاں پرزراعت کیلئے زمینیں ہموار کیں درخت اْگائیاور رہنے کیلئے گھر اورمستحکم قلعے تعمیر کئے۔ گزرتے وقتوں کے ساتھ فرد سے خاندان بنے،خاندان سے قبیلے تشکیل پائے۔ مدینہ منورہ کبھی قوموں کی گذرگاہ بناتو کبھی شہ زوروں کی آماجگاہ رہاتو کبھی آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کی قیام گاہ دین کبھی اصلی شکل پررہاتو کبھی بگڑگیا۔پیروان موسٰی وعیسٰی بھی یہاں آئے،کچھ یہاں رہ گئے تو کچھ کنعان یا مختلف علاقوں کی طرف ہجرت کرگئے۔ ولادت حضرت پیغمبرۖ سے ہزار سال قبل سے مدینہ میں یہ خبرسینہ بہ سینہ چلی آرہی تھی کہ یہ شہر نبی آخرالزماں ۖ کا مسکن قرار پائیگا۔” تبع حمیری” دنیا کے بادشاہوں میں وہ بادشاہ ہے جس نے ساری دنیا پر حکومت کی اسکی سپا ہ میں چار ہزار علماء وحکماء اسکے مشاور تھے۔
تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ مدینہ کے کسی رہنے والے نے تبع کے اہل خانہ کے ساتھ جسارت کی تھی تبع نے مجرم کی سرکوبی کیلئے سارے مدینہ کو تاراج کرنے کی ٹھان لی تھی، جس وقت لشکر نے خارج مدینہ پڑائو ڈالا اور مدینہ والوں کو اسکی خبرہوئی تو شہر کے اس وقت کے دانشوران و علماء نے بادشاہ تبع سے ملاقات کی اورشہر مدینہ کے فضائل وہ مناقب اورحضرت ختمی مرتبت کی آمد، انکی عظمت ومرتبت سے اسے باخبر کیا،بادشاہ کا غصہ ٹھنڈا ہوا،اس نیاپنے کاتب سیمرسل اعظم کے نام ایک خط لکھوایا جس میں اپنے ایمان کا تذکرہ کیا اور حضر ت کی خاتمیت کا اقرار کیا، روز قیامت شفاعت کی تمناکی پشت درپشت وہ خط منتقل ہوتارہا جب مرسل اعظم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو ابولیلیٰ نے نوے واسطوں کے بعد وہ خط سرکار کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت خط کو دیکھنے کے بعد مسکرائے اورتین بار فرمایا مَرحَبًا بِآَخِ الصَّالِح، حضرت امیر المئونین نے سرکار رسالت مآب ۖ کووہ خط پڑھ کرسنایا۔ بادشاہ تبع نے اعزازرسالتۖ میں چارسو گھر تعمیر کرائے اوراسکی سپاہ کے چارسوعلماء نے(یثرب) مدینہ میں اس خیال سے بود وباش اختیار کرلی کہ ہوسکتاہے جلدہی حضرت کا جلوہ ہوجائے خود بادشاہ تبع نے بھی انتظار بعثت کرتے ہوئے ایک سال مدینہ میں گزارا۔ قبیلہ اوس وخزرج کو پیغمبر اسلام کے استقبال کیلئے بسایا۔ اسی شہر مدینہ کا ایک مختصر ساحصہ ہے جسے آج ”جنت البقیع” کہتے ہیں،حمودی کے بیان کے مطابق لغت میں”بقیع” اس علاقہ کو کہتے ہیں جس میں مختلف درخت پائے جائیں گویا بقیع زمانہ قدیم میں وہ علاقہ تھا جہاں ایسے درخت پائے جاتے تھے جنکی جڑیں زمین کی گہرائی میں اتری ہوئی تھیں۔خاندان رسولۖ کے پاکیزہ افراد کی ہونے والی تدفین سے بھی یہ سمجھا جا سکتا ہے ان کی جڑیں بھی گہری ہیں اور ان کی رحمت کے درختوں کے جھنڈ بھی گھنے ہیں۔ بقیع کو بقیع الغرقد بھی کہتے تھے ،غرقد کے معنی کانٹے دار درخت کے ہیں۔(جاری ہے)
چونکہ بقیع میں” عوسج” نامی کانٹے دار درخت پایا جاتا تھا لہٰذا روزمرہ کی بول چال میں بقیع الغرقد مشہور ہوگیا، بقیع ایسے بقہ کو بھی کہتے ہیں جو ہمیشہ گنبد اور بقیع اٹھی ہوئی جگہ کو بھی کہتے ہیں۔
تاجدار مدینہ نے بعثت کے تیرہویں سال یکم ربیع الاول مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی ،12ربیع الاول کو مدینہ پہنچے ،یہاں پہنچ کر حضرت نے خدا سے عرض کی ! بارالہااس شہر کو ہمارے لیے محبوب قرار دے ،اسی طرح جیسا تو نے مکہ کی محبت میرے دل میں ڈال دی تھی ،یہاںکے کھانے اورپانی میں برکت عطا فرما ،تیرے خلیل نے مکہ کے لیے دعا کی تھی ،تو تیرا حبیب مدینہ کے لیے تجھ سے خیرات وبرکات کا خواہا ں ہے ،اس شہر کو بیماری وبلا سے محفوظ فرما۔اپنے اہل بیت اور اصحاب کے لیے گھروں کے حدود معین کئے ،بقیع کے درخت کاٹے گئے اور یہ رہائشی علاقہ میں تبدیل ہو نے لگا۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ موجودہ حرم آئمہ بقیع علیہم السلام درحقیقت حضرت عقیل کا گھر ہے،چونکہ دوسری صدی ہجری کے وسط یا ابتدا میں حضرت عقیل مدینہ تشریف لاچکے تھے۔حضرت مرسل اعظم کی تقسیم پر یہ زمین حضرت عقیل کے حصے میں آئی اور بنی ہاشم کے لئے حضرت عقیل کا گھر مرکزی حیثیت رکھتا تھا ،لہٰذا یہاںحضرت مرسل اعظم اور حضرت علی کی مرضی شامل تھی لہٰذا حضرت مرسل اعظم اوراہلبیت اطہآر اور بنی ہاشم کی آمد و رفت رہتی۔
جس وقت جناب فاطمہ بن اسد کا انتقال ہوا تو جناب عقیل نے آپ کو اپنے گھر میں دفن کیا چونکہ آپ رسول پاکۖ کی مربی اور حضرت علی کی والدہ تھیں لہٰذا قطعاً اس اقدام میں حضرت مرسل اعظم اور حضرت علی کی مرضی شامل تھی۔ اس تدفین کے بعد سے خانہ عقیل مقبرئہ بنی ہاشم کے نام سے پہچانا جانے لگا۔ تاریخ مدینہ میں ہے، دفن العباس عبدالمطلب عند قبر فاطم بنت اسد بن ہاشم فی اول مقابر بنی ہاشم التی فی دار عقیل۔
نہیں معلوم یہ تدفین گھر میں کیوں انجام پائی ؟ممکن ہے اسکی وجہ وہی ہو جس کا ذکر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی حیات طیبہ میں ملتا ہے کہ آپ کو یہ پسند نہیں تھا کہ عورت کے جنازہ کے خدوخال مشایعت کرنے والوں کے سامنے آئیں۔
جناب فاطمہ بنت اسد کی تدفین کے بعد بقیع میں بنی ہاشم کے گذشتگان کی تدفین انجام پانے لگی۔حضرات آئمہ طاہرین ،حضرت امام حسن امام زین العابدین، حضرت امام جعفر صادق کی تدفین کے بعد سے بقیع کوجنت البقیع کہنے لگے چونکہ پیغمبر اسلام کا ارشاد ہے کہ آئمہ ہدی میں سے جو بھی ہیں آسودہ لحد ہو گاوہ حصہ جنت کے حصوں میں سے ہے۔سب سے پہلے ماجد الملک ابوالفضل اسعد بن موسی ٰاردستانی نے حرم آئمہ بقیع پر قبہ ،منارہ اور ضریح نصب کرائی۔
حدودِ بقیع:۔ بقیع کے حدود صرف آئمہ ہدی علیہم السلام کی قبروں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ زمانہ رسالت مآب ۖ میں بھی اس کے کچھ حصوں کو بطور قبرستان استعمال کیا جانے لگا تھا۔ لہٰذا تاریخی ثبوت کی بناء پر مہاجرین میں سب سے پہلے جناب عثمان بن مظعون ذی الحجہ 2ہجری میں دفن ہوئے اور انصار میں سب سے پہلے اسد ابن زرارہ دفن کئے گئے۔
عثمان ابن مظعون حضرت کے یاران باوفا میں شمار ہوتے ہیں ، ان کی جدائی پر سرکار مدینہ کو قلبی صدمہ ہوا تھا لہٰذا جس وقت دفن کے لئے لے جارہے تھے تو حضرت نے ان کے منہ پر منہ رکھ کر گریہ فرمایا تھا۔یہی عثمان ابن مظعون حضرت علی کے یارانِ باوفا میں بھی شامل تھے۔انہی کے نام حضرت علی نے اپنے ایک فرزند نام بھی رکھاتھا جو شہدائے کربلا میں شامل تھے۔دفن کے بعد نشان قبر کے طور پر ایک بڑا پتھر نصب فرمایا اور برابر زیارت کے لئے تشریف لاتے تھے تاکہ آنے والی نسلیں فرزند مظعون کے اخلاص عمل سے آشنا ر ہیں۔ یہ پتھر زمانہ معاویہ تک قبر ابن مظعون کی پہچان بنا رہالیکن جب مروان بن حکم حاکم مدینہ بناتو اس نے اس کو وہاں سے ہٹوا کر قبر عثمان غنی پر لگوادیا جس پر اہل مدینہ نے شدید اعتراض بھی کیا لیکن وہ اپنے فیصلہ پر اٹل رہا، مہاجرین میں عثمان بن مظعون پہلے فرد ہیں جنہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔
حضرت ابراہیم فرزند رسول اللہ کا جب انتقال ہوا تو لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ انہیں کہاں دفن کیا جائے ؟ تو حضرت نے فرمایا ”الحقوہ بسلفنا الصالح عثمان بن مظعون ”مذکورہ روایت سے ثابت ہوا کہ حضور کے دور میںاہل خیر پر نام کی تختی لگانا مروج تھا ۔بنی اُمیہ بھی تبدیل نہ کر سکے بقیع کو بقیع کا نشان مٹانے والے نہ معلوم کس کے راستہ پر چل رہے ہیں؟
حضرت ابراہیم اور جناب عثمان ابن مظعون کی رحلت کے درمیان تقریباً آٹھ سال کا وقفہ ہے ،اس طولانی وقفہ کے بعد بھی فرزندمظعون کی فدا کاری قلب پیغمبر اسلام سے محو نہ ہوپائی۔ حضرت ابراہیم کے دفن کے بعد بھی حضور اکرم نے نشان قبر کے طور پر پتھر کے ٹکڑے نصب کرائے جو بعد والوں کو ان کی قبر کا پتہ دیتے تھے۔ تخریب سے قبل کی تصویروں میںا ن دو قبروں پر بھی قبے تھے۔ تخریب کے بعد نئے آنے والوں کو نہ بتایا جاتا ہے اور نہ جاننے والے ،نہ جاننے والوں کو بقیع پہنچ کر بتا سکتے ہیں کہ کون سی قبر کس کی ہے۔
چند سال قبل ایران سے ایک احتمالی نقشہ شائع ہوا تھا جس میں ان افراد کی قبروں کی نشان دہی کی گئی تھی جو اس سرزمیں میں آسودئہ لحد ہیں۔ جنت البقیع کے مرکزی دروازے سے داخل ہوں تو دائیں جانب 6 قبروں کے نشان ہیں جو بالترتیب حضور پاک کے چچا حضرت عباس ابن عبدالمطلب ، بی بی فاطمہ بنت اسد ہاشمیہ مادر گرامی مولا امام علی، حضرت امام حسن،حضرت امام زین العابدین ، حضرت امام محمد باقر، حضرت امام جعفر صادق کے پاکیزہ مزارات کے نشان ہیں۔مرکزی دروازے کے بائیں طرف قبروں کے تین نشان ہیں یہ حضور پاک کی پھوپھیاں جناب صفیہ ، جناب عاتکہ، مادر گرامی حضرت عباس علمدار کربلا بی بی ام البنین? کی قبروں کے نشان ہیں۔ چھ مذکورہ قبروں کے آگے جائیں تو دائیں جانب نبی کریمۖ کی ازواج دفن یعنی امہات المئومنین دفن ہیں۔ تھوڑا سا آگے جائیں تو ربائب رسول جناب ہالہ خواہر جناب خدیجہ کبرٰی کی تین بیٹیاں زینب، کلثوم اور رقیہ دفن ہیں جنہیں حضورۖ نے پالا تھا۔تھوڑا سا آگے جائیں تو حضرت عقیل ابن ابی طالب دفن ہیں جو حضرت علی کے بڑے بھائی تھے اسی جگہ سیدہ زینب کے شوہر عبداللہ ابن جعفر طیار دفن ہیں۔ان قبروں سے آگے بائیں جانب حضرت ابراہیم فرزند رسولۖ، حضرت اسماعیل فرزند امام جعفرصادق، شہدائے بدر و شہدائے احد کی قبریں ہیں۔ قبرستان کے آخر کے بائیں جانب حلیمہ سعدیہ دفن ہیں جنہوں نے حضور پاک کو پالا اور حضور انہیں اپنی ماں کہتے تھے۔ان مذکورہ نشانات کے علاوہ دس ہزار سے زیادہ اصحاب رسولۖ ایک سو سے زیادہ اہل بیت کے افراد بشمول سیدہ ام کلثوم ، سیدہ رقیہ ، سیدہ فاطمہ کبرٰی،بی بی ام رباب، بی بی لیلیٰ، بی بی لبابہ، زوجہ حضرت عباس علمداروغیرہ دفن ہیںجن کی مزارت کے نشان کا اندازہ ممکن نہیں،1437 سال سے جو مسلمان بھی مرا وہ اسی قبرستان میں دفن ہوا۔
بر اء بن عازب کی روایت ہے جس کو ابودائود ،ترمذی ،نسائی وغیرہ نے اپنی کتابوں میں روایت کیا ہے کہ پیغمبر اسلام عید الاضحی کے دن بقیع میں تشریف لے گئے ،دو رکعت نماز ادا کی پھر خطبہ دیا اور فرمایاپہلے نماز عید پڑھو پھر قربانی کرو۔
حمودی نے اسی بات کو مرجانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام ۖ نے نماز عید جہاں ادا کی تھی وہاں مسجد تھی۔ آج میرے قارئین میںایسے بھی لوگ ہوں جنہوں نے مدینہ منورہ کی زیارت کی ہو گی وہ گواہی دیں گے کہ آج بقیع میں کہیں مسجد کا دو ر دور تک نام ونشان نہیں ہے۔ حالانکہ فلادیلفیا یعنی موجودہ عمان(اردن) اصحاب کہف والی قبر کے نشان نہیں مٹائے گئے اور وہاں کی مسجد بدستور قائم ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔
مدینہ منورہ روئے زمین پر وہ منفرد شہر ہے جہاں مسجد وں کی تعداد دنیاکے ہر شہر سے زیادہ پائی جاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت پیغمبر اسلام ۖ نے جہاں جہاں نمازیں اد افرمائیں وہاں وہاں مسجدیں تعمیر کرائی گئیں لیکن اکثر مساجد کو موجودہ حکمرانوں نے اہل بیت کی دشمنی میں منہدم کر دیا۔ مثلا ً مسجد فاطمہ ،مسجد علی ابن ابی طالب ،مسجد ردا الشمس ،مسجد فضیخ اور مسجد البقیع جس کا ذکرابھی گزرا ہے۔
مسجد بقیع کا تذکرہ صاحب وفا ء الوفا نے اس طرح کیا ہے۔ کان فی غربِ مشہد العقیل وامہات المومنین یعنی وہ مسجد جس میں مرسل اعظم نے نماز عید ادا کی تھی وہ مشہد(مقبرہ) اور حضرت عقیل اور مقابر امہات المومنین کے مغرب میں تھی۔ اس روایت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ حیات حضرت مرسل اعظم میں مقبر ے تعمیر ہو چکے تھے اور اشراف اپنے گذشتگان کو مقبروں میں دفن کرتے تھے،اس سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جناب فاطمہ بنت اسد خانہ حضرت عقیل میں دفن کی گئی تھیں۔
میں حکمرانوں سے پوچھنا چاہتا ہو ں کہ کیا اسلام اجازت دیتا ہے کہ کسی مسلمان کے گھر کو منہدم کیا جائے ؟یا تصرف کیا جائے ؟یا آیا اسلام میںنقش قبر حرام نہیں ہے؟کیا قبر کو بنانا واجب نہیں ؟جب قبر بنانا واجب ہے تو گرانا کیسے جائز ہے؟
طبرانی نے ابن کثیر سے ،احمد ابن حنبل نے اپنی مسند میں اور ابن شبیب نے اخبار مدینہ میں نافع راوی کے حوالے سے لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام بقیع تشریف لے گئے آپ کے ہمراہ حفصہ تھیں۔ آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا یحشر من ہذہ المقبرہ سبعون الفاًید خلون الجن بغیر حساب وکان وجوہم القمر لیل البدر۔”اس روایت میں لفظ ،مقبرہ ،استعمال ہوا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ زمانہ حضرت میں قبروں پر مقبرے تعمیر ہوچکے تھے۔سورہ تقاثر میں جو مقابر کا ذکر آیا اس سے مراد بھی مقبرے ہیں یعنی نشان ہائے قبر جگہیں۔
یہی نہیں حمودی کا بیان ہے کہ مصعب ابن زبیر جب مدینہ آیا تو اس کے ساتھ راس الجالوت کا بیٹا بھی تھاجب اس نے جنت البقیع کو دیکھا تو برجستہ کہا ”یہی ہے یہی ہے ”تو مصعب نے پوچھا کہ کیا کہہ رہے ہو ؟تو راس الجالوت کے بیٹے نے جواب دیانجد ہذہ المقبرہ فی التورآ میں نے اس مقبرہ کا تذکرہ توریت میں دیکھا ہے یہاں سے ستر ہزار لوگ اٹھائے جائیں گے جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح دمک رہے ہونگے۔ جنت البقیع حوادث زمانہ کا شکار بھی ہوگی لہذا اس کی طرف بھی مختلف واسطوں سے حضرت مرسل اعظم کی احادیث میں تذکرہ پایا جاتاہے۔
مثلا عقبہ ابن عبدالرحمن کا بیان ہے کہ حضرت نے فرمایا ” مقبر ما بین المسلمین” یعنی مدینہ میں کبھی سیلاب آئے گا اور اس سیلاب میں ایک مقبرہ ایسا ہوگا جس سے نور آسمان می طرف بلند ہوگا۔
ابن شبیب نے نقل کیا ہے ” قبر فاطمہ بنت اسد و علیھا قب فی اخر البقیع” یہ اہل سنت کا نظریہ ہے بقیع کے آخر میں جناب فاطمہ بنت اسد کی قبر ہے۔اہل تشیع کا نظریہ پہلے بیان ہو چکا ہے بقیع میں داخل ہوتے دائیں جانب قبر ہے۔ اہل سنت کے نظریہ کے مطابق جو قبر مادر علی ہے اس پر قبہ موجود تھا۔8 شوال 1344 ہجری کے دن محمد ابن عبدالوہاب کے فتوی پر محمد ابن سعود نے یہ مقبرے گرائے جو 93 سال گزرنے کا باوجود تعمیر نہ ہو سکے ان 93 سالوں عاشقان رسالت اور محبان اہل بیت نے پر امن احتجاج جاری رکھا اور جاری رکھیں گے۔
خدایا ! معمار بقیع حضرت امام زمانہ حج ابن الحسن عج کے ظہور میں تعجیل فرما تاکہ ترے نبیۖ کے نواسوں اور اسلام کے فداکاروںکی خدمات سے دنیا آشنا ہو سکے۔
قبور اور مقابر کی تعمیر کے مزید دلائل:۔قارئین اگر قبروں کا بنانا جائز نہ ہوتا تو ہمیں کسی بھی نبی کی قبر کا علم نہ ہوتا۔جبکہ ہم جانتے ہیں حضرت آدم ، حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت صالح کی قبریں نجف اشرف میں موجود ہیں۔حضرت ہابیل کی قبر شام میں ہے۔حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کی قبریں بیت المقدس کے جوار میں ہیں۔حضرت اسماعیل، حضرت ہاجرا سمیت 70 انبیاء حطیم اسماعیل میں دفن ہیں جوار خانہ کعبہ میں ہیں۔حضرت یونس کی قبر موصل میں ہے۔ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کنعان میں ہیں۔حضرت دائوود ،حضرت سلیمان کی قبریں بابل میں ہیں۔حضرت دانیال کی قبر شوش ایران میں ہیں وغیرہ وغیرہ۔سعودی فرما نروائوں سے سوال ہے اگر بیت اللہ اور بیت المقدس کے جوار میں قبروں کے نشان اور حطیم اسماعیل میں باونڈری لگ سکتی تو روزہ رسولۖ کے جوار میں بقیع پر مقبر ے کیوں نہیں تعمیر ہو سکتے؟
میں نے ویٹیکن سٹی کا دورہ کیا جو اٹلی روم میں ہے اور پاپائے روم عجائب گھر میںمیں نے عیسائی مذہب کے اور اسلام کے بہت سارے تبرکات دیکھے جنہیں عیسائیوں نے محفوظ کیا ہے۔ عیسائی اس گدھے کے سموں کے مٹی والے پنجرے کا بوسہ لیتے ہیں جس پر حضرت عیسی سوار ہوئے تھے۔جبکہ کہ نام نہاد مسلمان روزہ رسولۖکی جالی کا بوسہ لینے پر اعتراض کرتے ہیں۔افغانستان میں بامیان کے گوتم بدھ کا مجمسہ اڑایا گیا تو مسلمانوں سمیت سب نے احتجاج کیا۔ گوتم بدھ کے مجسمے کو گرانے پر احتجاج کرنے والوں کو کیا انہدام جنت البقیع پر احتجاج یادنہیں آتا۔موہنجوڈورو ، ہڑپہ اور ٹیکسلا کے آثار قدیمہ کو محفوظ کیا جاتا ہے تو جن کی وجہ سے کائنات بنی ان کی پاکیزہ قبروں کو کیسے محفوط نہیں کیا جا سکتا ؟اہرام مصر کی حفاظت پر کروڑوں ڈالر لگ سکتے ہیں تو کیا نبیۖ پاک کے خاندان کے مقبرے تعمیر نہیں کیے جا سکتے؟حکمران اپنے محلوں پر مقابلہ بازیوں کے ذریعہ دولت خرچ کر سکتے ہیں تو کیا اہلبیت کے مقبروں کے چراغ نہیں جلائے جا سکتے جنہوں نے اسلام کا چراغ روشن کیا۔ یہودی تو اپنے قبرستانوں میں پائوں سے جوتے اتار کر جائیں اور مسلمانوں کو اہل بیت کے خاندان کی پاکیزہ قبروں سے محروم زیارت کیا جائے۔امریکہ میں کولمبس کا نشان تو باقی ہو اور ہمارے مولا رسول کی ولادت کا نشان چھپا دیا جائے۔امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کا مقبرہ تو موجود ہو اور آقا کریم کی بیٹی کانشان قبر معلوم بھی نہ ہو۔
اس قسم کے ہزاروں سوالیہ نشان تاریخ کے ماتھے پر تھے اور رہیں گے۔مقابر کو مسمار کرنے کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے اور نہ کوئی اور مذہب اور نہ سماج نہ معاشرہ نہ سیاست نہ ریاست۔ میں امت مسلمہ سے گزارش کروں گا کہ سب سعودی عرب پر زور دیں کے وہ جلد از جلد عاشقان رسولۖ اور محبان اہلبیت کو جنت البقیع تعمیر کرنے کی اجازت دیں تاکہ مسلمانوں کا حشر نشر حضور کا جنازہ پڑھنے والوں کے ساتھ ہو چھوڑنے والوں کے ساتھ نہ ہو۔حضور کے راستے پر چلنے والوں کیساتھ ہو حضور کا راستہ ترک کرنے والوں کے ساتھ نہ ہو۔ سنت رسول پر چلتے ہوئے قبرستان میں سلام کرنے والوں کے ساتھ ہو ترک سنت رسول کرتے ہوئے منہ موڑنے والوں کے ساتھ نہ ہو۔مسلمانوں کا حشر نشر ان کے ساتھ نہ ہو جنہوں نے بی بی عائشہ کو زندہ درگور کر دیا نشان قبر تک نہ چھوڑابلکہ ازواج رسول کا احترام کرنے والوں کے ساتھ ہو۔
قارئین! ابرہہ کے لشکر نے ہاتھیوں پہ سوار ہو کر خانہ کعبہ کو منجنیقوں سے چوٹنے کی جو بدعت شروع کی تھی اسے یزیدی فوج نے کعبہ جلا کر باقی رکھا۔ یزیدی فوج نے مسجد نبوی کو اصطبل بنانے کی جو بدعت شروع کی تھی اسیآج بھی بکے ہوئے مولوی ممبروں پر بندروں کی طرح ناچ کر پورا کر رہے ہیں۔قاتل امیر المومنین حضرت علی اور قاتل ام المئومنین حضرت عائشہ نے قبروں کو چھپانے کی جو بدعت شروع وہ آج بھی آثار مٹانے کی شکل میں جاری ہے۔
میں اُمت مسلمہ سے سوال کرتا ہوں کیا ہمارے نبی کریمۖ کے والدین شریفین حضرت عبداللہ اور بی بی آمنہ بن وہب مدینہ منورہ کے مضافات میں ابوہ نامی بستی میں دفن ہیں کیا کسی نے والدین رسول کی قبروں پر ان کے نام کی تختی دیکھی ہے؟ کیا کسی نے نشان قبر دیکھا ہے؟ یہ بتایا جائے کہ رسول کے والدین کی قبروں کے نشان مٹا کر کیا مشن پورا کیا جا رہا ہے ؟ اگر رسولۖ کے والدین کی قبروں پر روضے تعمیر ہوجائیں تو کیا رسولۖ ناراض ہوں گے یا راضی ہوں گے؟ مکہ مکرمہ میں جو قبرستان 14سو سال سے موجود ہے ان پر حضورۖ کے دادا پڑدادا اور اجداد چچا اور زوجہ کے مزار تعمیر کئے تو حضور خوش ہوں گے یا نا خوش ہوں گے؟
جنت البقیع میں حضور کے خاندان، اجداد و اقربا، اہل بیت، ازواج اور اصحاب کی قبروں پر سائبان لگا دیئے جائیں تو حضور راضی ہوں گے یاناراض ہوں گے؟ ہم بلاد مغرب میں غیر مسلموں کو کیا جواب دیں؟ پرسوں ہمارے شہر کے مئیر نے ہر مکتب فکر کو بلایا تھا جس میں ہزاروں افراد شریک تھے۔
راقم الحروف نے بھی خطاب کیا وہاں ہر ایک کے ہاتھ میں شمعیں دی گئیں تھیں کہ وہ وردی میں قتل ہونے والوں کے افراد کے خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردری کریں۔ اگر امریکہ میں پولیس والوں کے قتل پر احتجاج کرتے ہوئے اور تعزیت پیش کرتے ہوئے موم بتیاں جلائی جا سکتی ہیں تو حضور کے خاندان کے قبرستا ن میں چراغاں کیوں نہیں ہو سکتا ؟عیسائیوں کے قبرستان کو رنگ برنگے قمقموں کی وجہ سے شہرستان لگتے ہیں اور جن کی وجہ سورج چاند ستارے روشن ہیں ان کے قبرستانوں کو تاریک کر دیا گیا۔
میں آخر میں امید رکھتا ہوں ہمارے مسلمان بھائی بہنوں کو احساس ذمہ داری پیدا ہوگا۔ وہ انہدام جنت البقیع کے احتجاج میں شامل اور تعمیر جنت البقع کی کوششوں میں ممد و معاون ہوں گے۔ اللہ حامی و ناصر ہو اور اللہ امام زمانہ کے ظہور میں تعجیل فرمائے جو ظلم کے آثار مٹائیں اور مظلوموں کے آثار تعمیر کریں گے۔جو حق کا بول بالا کریں گے باطل کا منہ کالا کریں گے جن کے وجودسے زمین عدل و انصاف سے بھر جائے گی اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
٭٭٭