5اگست کا دن برصغیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس دن انڈیا کے غاصب حکمران نریندر مودی نے کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کرنے کو انڈیا کا حق قرار دینے کی کوشش کی گزشتہ پچاس سالوں سے جس طرح نہتے اور معصوم کشمیریوں پر ظلم، بربریت قتل وغارت اور خواتین کی بے حرمتی کر رہے ہیں،دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی، سب سے زیادہ ظلم اور زیادتی ایک کروڑ کے قریب کشمیریوں پر سات لاکھ انڈین سکیورٹی فورسز ظلم بربریت کر رہے ہیں، اس کے باوجود کشمیریوں کے حوصلے بلند ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں۔1947میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس کے پیچھے بھی لاکھوں جانوں کی قربانیاں شامل ہیں اور قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت کی وجہ سے پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔75سالوں سے پاکستانی14اگست کو یوم آزادی بڑے جوش جذبے سے مناتے ہیں ،آزادی کو پوری طرح انجوائے کر رہے ہیں، قائداعظم کے بعدکیا ہوا ،سول اور فوجی قیادتوں نے کیا کیا ۔کارکردگی کی اس سے ہٹا کر آزاد وفائوں میں سانس لیتے ہوئے پاکستان قائم دائم رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی قوم دنیا میں جہاں بھی آباد ہیں نہایت محنتی اور قابل قوم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔یورپ ، امریکہ ، مڈل ایسٹ جہاں جہاں بھی پاکستانیوں کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے موقع دیا گیا خوب نام کمایا ۔ اسی طرح کشمیری کمیونٹی بھی دنیا میں خاص طور پر انگلینڈ میں کیثر تعداد میں موجود ہے اور یورپ کی سیاست میں بہت متحرک ہیں ، کئی یورپی اسمبلیوں کے ممبر بھی ہیں ، نہایت باصلاحیت قوم کی حیثیت سے اپنی ذاتی کامیابی اور کشمیر کاز کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں یہاں امریکہ میں بھی آزاد کشمیر اور جموں کشمیر کے کثیر تعداد میں لوگ آباد ہیں جو کبھی کشمیر کے لئے آواز اُٹھاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن جب بھی کپٹل ہل یا اہم اداروں میں کشمیر پر بات ہوئی تو اس موقع پر مقبوضہ کشمیر کے لوگ جو امریکہ میں آباد ہیں ان سب کا حوالہ دیا جاتا ہے اور یہاں کشمیریوں کی کسی تنظیم کے حوالے سے کبھی کوئی اہم حوالہ سامنے نہیں آیا۔امریکہ سپرپاور ہے اور انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات کو اہم سمجھتا ہے انڈیا کے لوگ جو لاکھوں کی تعداد میں امریکہ میں آباد ہیں وہ بڑے متحرک اور کامیاب لوگ جانے جاتے ہیں۔اس وقت وہانٹ میں چالیس سے پچاس انڈین امریکن تعینات ہیں اور امریکہ کی ہر ریاست میں گورنر کمشنر اور دیگر اداروں میں تعینات میں نہایت منظم اور مستحکم طریقے سے انڈیا کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔امریکی سیاست میں انڈینز کا اثرورسوخ اتنا ہے ، کشمیر کا معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔ہمارے بیچارے کشمیری بھائی جو کشمیر کاز کے لئے مختلف ریسٹورنٹس میں کھانے اور تقریبات کی تصویروں کے ذریعے کشمیر کو آزاد کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور جتنی بھی تنظیمیں ہیں ان کا ایک ہی صدر ہے ایک ایک ہی چیئرمین ہے ہر کشمیری خود ساختہ لیڈر ہے۔امریکہ میں کشمیری خودساختہ رہنمائوں کی اکثریت غیر سنجیدہ ہے جو پاکستان کے میڈیا میں براہ راست جھوٹی خبروں کے ذریعے معلوم نہیں کس کو خوش کر رہے ہیں۔امریکہ میں نہایت مضبوط سیاسی سسٹم میں آسانی سے داخل ہوا جاسکتا ہے۔جس طرح انڈین اور دیگر قومیں آگے بڑھ رہی ہیں اسی طرح نچلے درجے سے کونسل مین سے لیکر کانگریس مین تک نہایت آسان ہے۔اس کے لئے سنجیدگی مستقبل مزاجی کی ضرورت ہے۔جتنے بھی کشمیری امریکن ہیں اگر اپنے اپنے حلقے کے لیڈز امریکن کانگریس دیگر لوگوں سے روابط بڑھائیں اور کشمیر کے معاملہ کو اجاگر کرتے رہیں تو یہ امریکی سیاست دان ووٹ اور فنڈز کی وجہ سے بڑی توجہ سے ایشوز پر توجہ دیتے۔پانچ اگست آگیا انڈین ایمبسی کے سامنے احتجاج ہوگا کشمیری بھائی تصاویر بنوا کر کھانا کھا کر گھروں کو چلے جائیں گے۔انڈین حکومت اور سکیورٹی فورسز کو کوئی فرق نہیں پڑیگا۔جس طرح وزیراعظم عمران خان یو این او میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا تاریخ کا حصہ اور یو این کو یاد دہانی کروائی کہ اقوام متحدہ کا کام ملکوں کے مسائل حل کرنا اور حق داروں کو ان کا حق دلانا ہے ، مسئلہ کشمیر کا حل اسی صورت ممکن ہوگا جب حقیقت میں امریکی سیاست دانوں سے روابط بڑھائیں گے عملی طور پر نمود نمائش اور جھوٹی خبروں سے جدوجہد کریں گے تو ناممکن ہے۔امریکی پاکستانی اور کشمیری اپنی پوزیشن بہتر کرکے امریکی انتظامیہ اور پاور ہائوسز کو یہ پاور کروا سکیں کہ یو این او کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے میں امریکہ اپنا کردار ادا کرے ۔اس عمل کے لئے سنجیدگی اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہے ، اس کے بعد انڈین حکومت کے5اگست کے خوفناک آرڈیننس کو ختم بھی کروایا جا سکتا ہے اور14اگست جیسے جشن آزادی کو بھی منا سکتے ہیں۔
٭٭٭