اسلام آباد(پاکستان نیوز) نئے سال کے آغاز پر سیاست کی ہنگامہ خیزی مستقبل میں بڑے سیاسی بھونچال کی پیشگوئی کر رہی ہے، ایک کے بعد ایک واقعات اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں، تحریک انصاف کی جانب سے خفیہ رکھنے کی الیکشن کمیشن کو درخواست کے باوجود سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آچکی ہے جس میں حکمران جماعت پر ممنوعہ فنڈنگ کے 53اکاؤنٹس چھپائے جانے کا بتایاگیاہے۔الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی رپورٹ کے بعد پاکستانی سیاست میں ایک بار پھر سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جارہاہے۔اپوزیشن جماعتیں اس رپورٹ پر بھر پور سیاست کر رہی ہیں اور حکمران جماعت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیاجارہاہے لیکن ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن کے ضوابط میں یہ اتنا بڑا معاملہ نہیں کہ کسی سیاسی جماعت کو اس بنیاد پر بین کیاجائے یا ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔ملکی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی ایسی مثال بھی موجود نہیں جس میں کسی سیاسی جماعت کو مالی بے ضابطگی کے الزام میں کالعدم قرار دیا گیا ہو یا کوئی سخت کارروائی عمل میں لائی گئی ہو۔دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اس رپورٹ میں لگائے گئے الزامات مسترد کرتے ہوئے معمولی لاپرواہی کی وجہ سے چند اکاؤنٹ ظاہر نہ کرنے کو تو تسلیم کیا لیکن ممنوعہ فنڈنگ یا فنڈز چھپانے کا دفاع کیاہے۔پی ٹی آئی فارن فنڈنگ سے متعلق الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی بینک اکاؤنٹس کی تفصیل سکروٹنی کمیٹی منگل کو منظر عام پر لائی جس میں اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنے اور 31کروڑ روپے فنڈز چھپانے کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے سامنے آتے ہی حزب اختلاف حکمران جماعت کے خلاف صف آرا ہوگئی۔رواں برس کی دوسری بڑی سیاسی بھونچال کی خبر پاک فوج کی جانب سے آئی ، عرصہ دراز سے الیکٹرانک ، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر باز گشت سنائی دے رہی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے اُکتا گئی ہے اور نوا زشریف کو لندن سے پاکستان لانے کی ڈیل مکمل ہوگئی جس میں پاک فوج نے کلیدی کردا ر ادا کیا تو اس حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے ڈیل سے متعلق باتوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیل کے حوالے سے باتیں من گھڑت اور قیاس آرائیاں ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ڈیل سے متعلق سب باتیں بے بنیاد افواہیں ہیں جن پر ہم جتنا کم بات کریں اتنا بہتر ہے، انہوں نے کہا کہ سول، ملٹری تعلقات میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، شام کے پروگرامز میں کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ کردیا وہ کردیا، اسٹیبلشمنٹ کو ڈیل اور اس طرح کی باتوں سے باہر رکھا جائے، ڈیل کے حوالے سے باتیں من گھڑت اور قیاس آرائیاں ہیں، ڈیل کی باتیں کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ کون ڈیل کی باتیں کر رہا ہے اور اس کے محرکات کیا ہیں، کیا شواہد ہیں۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ کچھ عرصے سے پاکستان کے اداروں کے خلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے، اس مہم کا مقصد عوام اور ریاست کے درمیان دوریاں اور خلیج پیدا کرنا ہے، شرپسند لوگ بیرون ملک بیٹھ کر ملک کے خلاف جھوٹی مہم چلا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ شرپسند عناصر پہلے بھی ناکام ہوئے اور آئندہ بھی ناکام ہوں گے، ہم ان عناصر کے مذموم عزائم اور مقاصد سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان کے لنکس سے بھی باخبر ہیں۔انہوں نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے، موجودہ افغان حکومت کی درخواست پر کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا آغاز کیا گیا لیکن کچھ چیزیں ناقابل قبول تھیں، تنظیم غیر ریاستی عنصر ہے جو پاکستان میں کوئی بڑا حملہ نہیں کر سکی۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی میں اندورنی اختلافات بھی ہیں جبکہ افغان حکومت کو کہا ہے کہ اپنی سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔انہوں نے کہا کہ 2021 کے دوران مغربی سرحد پر سیکیورٹی کی صورتحال چیلنجنگ رہی، افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے اثرات پاکستان کی سیکیورٹی پر پڑے، مغربی سرحدی انتظام، خاص طور پر پاک۔ افغان سرحد پر کچھ مسائل ہیں جن کو متعلقہ سطح پر حل کیا جا رہا ہے جبکہ پاک۔ افغان حکومتی سطح پر دونوں طرف ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔رواں برس مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور سینئر رہنما پرویز رشید کے درمیان ٹیلی فونک کی خفیہ ریکارڈنگ بھی سامنے لائے گئی جس میں دونوں من پسند صحافیوں اور ناپسند صحافیوں اور پروگراموں کے متعلق بات چیت کرتے سنائی دے رہے ہیں ، آڈیو ریکارڈنگ بھی یہ پہلو نمایاں کر رہی ہے کہ سیاستدانوں کی ملکی صحافت میں مداخلت کس حد تک بڑھ گئی ہے جبکہ لفافہ جرنلزم کے پروان چڑھنے کے بھی واضح اشارے ملے ہیں۔ حکومت کے خلاف اب تک قابل قدر مزاحمت نہ کرنے والا سندھ کا سیاسی محاذ بھی سر اٹھانے لگا ہے ، اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کی کراچی میں ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کے ساتھ پریس کانفرنس کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے جس میں دونوں جانب سے منی بجٹ کے خلاف مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے پر اتفاق کیا گیا، پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کی جانب سے جے یو آئی ف کے سربراہ فضل الرحمان سے ملاقات کو بھی سیاسی محاذ کی ایک کڑی قرار دیا جا رہاہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت رواں برس بھی اپنی کارکردگی کو ثابت کرتے ہوئے حکومت کو جاری رکھے گی یا پھر تبدیلی کی خاموش سونامی کی زد میں آ جائے گی۔