انسان کو اشرف المخلوقات اسی لیے بنایا گیا ہے کے اس کے اندر دوسری مخلوقات کے مقابلے میں سوپنے سمجھنے اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔اور یہی خصوصیت اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔اگر وہ اپنے پیدا ہونے کے مقصد پر غور کرے۔یہ سوچے کے اسے دنیا میں اچھے کام کرنے کے لیے پیدا کیاگیا ہے۔دوسروں کو تنگ کرنے اور ان پر کچھڑ اچھالنے کے لیے نہیں کسی مغرب دنیا بہت تیز رفتار دنیا ہے یہاں آزادی بھی ہے۔روپیہ پیسہ بھی اور برائیاں کرنے کے بہت زیادہ ذرائع اور مواقع ہیں۔یہاں رہنے بسنے والے اگر برائی سے دور رہتے ہیں اور نیکی کا ایک چراغ بھی جلاتے ہیں۔تو یہ ان کے غوروفکر کرنے کی صلاحیت یہی ہے اپنے آپ کو برائیوں سے دور کرکے اچھائیوں کی طرف لانا اور اپنی بقاء کی جنگ خود لڑنا ہی ایک جہاد ہے۔اور یہی کامیابی کا راستہ ہے جیسے اگر کوئی چنتا ہے تو اس کا مطلب ہے کے اس نے عقل سے کام لیا۔اور اپنی صلاحیت پر بھروسہ کیا ہمارے جیسے بہت سارے مسلمان اس ملک میں آباد ہیں۔ وہ یہاں کی برائیوں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں نکتہ چینی کرتے ہیں ۔ساتھ بھی وہی واقعات ہونا شروع ہو جاتے ہیں جس کے لیے وہ دوسروں پر انگلیاں اٹھا رہے تھے،کیونکہ ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کے ہم جس ملک میں آباد ہیں وہاں کی برائی ہمارے گھر کا راستہ بھی دیکھ سکتی ہے۔ ہم کو یہی سوچ کر محتاط رہنا چاہیے اور دوسروں پر انگلی اٹھانے کی بجائے اچھائی کی ابتدا اپنے گھر سے کرنا چاہیے۔ ایک امریکہ میں بسنے والے مسلمان بھائی سے ملاقات ہوئی جو کے کسی امریکن فیملی سے تعلق رکھتا ہے،اس نے بتایا کہ اس نے اس کی بیوی نے اب سے بارہ تیرہ سال پہلے اسلام کا راستہ اپنایا اور کلمہ پڑھا اس نے ا پنے خاندان میں کافی برائیاں دیکھیں۔ اس کی بہن چودہ سال کی عمر میں ایک بچے کی ماں بن گئی،اس کے ماں باپ میں علیحدگی رہی اس کے نانا نانی میں علیحدگی رہی،اس نے بچوں کو خاندان کے بزرگوں کی عزت کرتے نہیں دیکھا،اس نے یہ سب برائیاں دیکھ کر ان برائیوں پر انگلی اٹھانے کی جگہ غورو فکر کا راستہ اپنایا،اس نے غورو فکر کیا اور پھر مسلمان بنا،آج اس کی دو بچیاں ہیں وہ اور اس کی بیوی ان بچوں کویہ سوچ کر اچھی تربیت دے رہے ہیں کہ کل ہی بچیاں بہت ساری برائیاں دور کر میں گئی اور ان کو دیکھ کر لوگ اچھاراستہ اپنائیں گے۔معاشرتی برائیاں ایک طرف لیکن امریکہ میں مسلم کمیونٹی کے بچوں کی تربیت ایک اہم پہلو ہے جس کے دوران اکثر والدین دبائو کا شکار رہتے ہیں کیونکہ جیسے ہی وہ بچوں کو بری باتوں سے منع کرتے ہیں تو اردگرد کے لوگ ان کو اس زبردستی سے منع کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ خاندان کے افراد بھی اس روش کو سخت نا پسند کرتے ہیں ،کوئی بھی ان کے اس اقدام کو پسند نہیں کرتا۔بلکہ وہ جب بھی بچوں کو اچھی تربیت دینے کے لیے روک ٹوک کرتے ہیں۔خاندان کا دبائو بڑھ جاتا ہے وہ سب کو بہت عجیب اور قدامت پسند لگتے ہیں، بے شک یہ چیزیں دکھ دیتی ہیں مگر یہ دکھ اس دکھ سے کم ہے جہاں آپ کی چھوٹی سی بیٹی غلط راہ پر چلی جاتی ہے۔یا آپ کا بیٹا گمراہ ہوجاتا ہے آپ کے بچے آپ کی عزت نہیں کرتے۔گالیاں دیتے ہیں منہ زوری کرتے ہیں شراب پیتے ہیں ڈرگ لیتے ہیں آپ کے پیسے چھینتے ہیں۔یہ وہ دکھ ہیں جہاں انسانیت ختم ہوجاتی ہے۔سب لوگ اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بھی اپنے رتبے سے کم ہوجاتے ہیں۔جانوروں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔اس کا کہنا ہے کے ایسے حالات میں زندگی گزارنے سے بہتر ہے کے ہم اپنے آپ کو سدھار لیں اور اپنے آپ کو صحیح راستہ دکھائیں یہی ہماری ذمہ داری ہے کے ہم اپنے خاندان کو درست کرلیں۔اگر سب لوگ دوسروں کی زندگی اور ان کے حالات پر نظر رکھنے کی بجائے اپنے حالات پر نظر رکھ کر چراغ جلانا چاہیں تو روشنی ضرور ملتی ہے۔
٭٭٭