راقم الحروف کا تعلق ایک مڈل کلاس سے ہے۔میں بنیادی طور پر ایک جمہوریت، آزادی اور انصاف پسندہوں جو پاکستان میں دنیا کی مذہب اور جمہوری ریاستوں کی طرح جمہوریت اور قانون کی حکمرانی چاہتا ہوںجس کے لئے مجھے گزشتہ نصف صدی سے زیادہ جدوجہد میں حصہ لینا پڑا ہے۔میری ابھی تیرہ سال کی عمر تھی کہ جب مجھے طلباء تحریک کے دوران بس جلانے میں دھر لیا گیا۔1967ء میں جب ایشیاء کا سب سے بڑے اسلامیہ کالج کراچی میں داخلہ ملا جس کے طلبا کی تعداد پندرہ ہزار کے لگ بھگ تھی تو جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز ہوچکا تھاجس میں طلبا اور مزدور پیش پیش تھے لہٰذا میں بھی اپوبی آمریت کے خلاف طلبا تحریک میں شامل رہا۔1970ء میں جب میں اسلامیہ کالج آرٹس طلبا یونین کا صدر منتخب ہوا تواس وقت بنگال میں بنگالی قوم کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہو رہا تھا جو مطالبہ کر رہی تھی کہ ان کی اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار دیا جائے جو نہیں دیا جارہا تھا لہذا ہم ترقی پسند طلبا یونین کے عہدیداران نے طلبا پلیٹ فارم پر بنگال میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی جس کی پاداش میں جیل میں بند کردیا جب رہا ہوئے تو پاکستان ٹوٹ چکا تھا اور خالق پاکستان بنگالی قوم پاکستان سے الگ ہوچکی تھی۔1974ء میں خاکسار دوبارہ اسلامیہ کالج لاء کالج کی طلبا یونین کا صدر منتخب ہوا تو بھٹو دور میں ملک میں طلبا اور مزدور تحریک زور پر تھی۔مزدوروں پر گولی چل تھی پاکستان کی سب بڑی جمہوری پارٹی نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگ رہی تھی۔سینکڑوں سیاسی کارکن سیاستدان طلبا اور مزدور جیلوں میں بند تھے۔انسانی شہری اور بنیادی حقوق پامال ہوچکے تھے۔پورے ملک میں ڈی پی آو ایمرجنسی دفعہ144اور کالے قوانین کا نفاذ تھا جس کی وجہ سے ہم طلبا یونین کے عہدیداران کو تحریک چلانا پڑی جس کی پاداش میں جیلوں میں آنا جانا رہا۔چونکہ طلبا سرگرمیوں اور تحریکوں کی وجہ سے ہم حکمرانوں کی نظر میں بدنام تھے تو جنرل ضیاء الحق کے ہرکاروں اور اہلکاروں نے ہمارے گھروں پر چھاپے مارنے شروع کردیئے کیونکہ ہم نے مزدور کسان پارٹی کے پلیٹ فارم پر سب سے پہلے 5جولائی1977ء کو کراچی ریگل پر فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کیا تھا۔کہ ملک میں آئینی حکومت کی جگہ کسی غیرآئینی اور غیر قانونی حکومت کا وجود نہیں چاہئے جس کی وجہ سے ہم پر دن رات چھاپے مارے جارہے تھے۔پولیس چھاپوں کا اس وقت زور پکڑ گیا جب جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ میں پاکستان کو انڈونیشیا کی طرح بائیں بازو کو حامیوں کو سبق سیکھا دونگا جس طرح انڈونیشیا میں جنرل سائوتھ کے دور بربریت میں ترقی پسندوں کو گھروں میں مار دیا گیا تھا۔جس کے خلاف روس کا رد عمل آیا کہ آج1964نہیں ہے کہ پاکستان میں بائیں بازو یا ترقی پسندوں کے نام پر انسانوں کا قتل عام ہوا۔بعدازاں ہم ساتھیوں، ڈاکٹر جبار خٹک، صحافی پبلشر عوامی آواز مشہور کامریڈ جام ساقی اور دوسرے ساتھیوں کے خلاف سندھ پملٹ کیس بنایا گیا جو مقدمہ بغاوت کہلایا تھا۔جس میں ڈاکٹر جبار خٹک، جام ساقی وغیرہ گرفتار ہوگئے مگر میں بچ نکلا جس کی بنا پر میں ترک وطن پر مجبور ہوا جو نہ جانے کونسی کونسی مشکلات اور مصائب کا سامنا کرتا ہوا آج امریکہ میں آباد ہوں جس طرح دنیا بھر کے لوگ سیاسی انتقام، معاشی زیادتیوں، مذہبی تشدد کی وجہ سے آباد ہوئے ہیں۔امریکہ میں مجھے دیرینہ بزرگ ساتھی ڈاکٹر فیروز احمد جیسے ترقی پسندوں سے ملاقات ہوگئی۔مزدور کسان پارٹی کے اس وقت کے سربراہ فتحیاب علی خان نے مجھے مزدور کسان پارٹی کا نارتھ امریکہ کا سربراہ نامزد کردیا تاکے میں اپنی سیاسی معاشی اور سماجی جدوجہد جاری رکھوں جس کی بنا پر ہم سب ترقی اور جمہوریت پسند ساتھیوں کے ایم آر ڈی کی بنیاد رکھی جس میں ڈاکٹر فیروز احمد بیگ ملک،صادق طاہر، عباس اظہر، محمد علی بٹ، زندہ محمود باجوہ، شبیر شیخ، آغا ذوالفقار، رضوان حمید، ملک شجاع، انعام عباسی مرحوم، سرفراز چیمہ، امانت علی اور دوسرے درجنوں لوگ شامل تھے۔جس میں پی پی پی اور مزدور کسان کے اراکین زیادہ اکثریت میں شامل تھے جس کی بنا پر ایچ آر ڈی امریکہ کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کا جس جنرل سیکرٹری نامزد ہوا جس کے بعد ہم جمہوریت پسندوں نے درجنوں لاتعداد احتجاجات منعقد کیے درجنوں جلسے، جلوس ہوئے۔جنرل ضیاء الحق کئی گیارہ سال تک مسلسل مخالفت کی گئی ہیں۔جس کی بدولت پاکستانی امریکن پہلی بار جمہوریت کے حصول کے لئے محرک رہے۔ابھی اندرون، اور بیرون ملک جمہوری تحریک جاری تھی کہ اچانک پتہ چلا کہ جنرل ضیاء الحق کا جہاز کریش ہوگیا۔جس کے بعد پاکستان میں جمہوری حکومت کا وجود لایا گیا جس کی سربراہ پاکستان کی مسلح دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بینظیر بھٹو شہید کو منتخب ہوئیں۔جس کا سلسلہ دس تک بینظیر بھٹو اور نوازشریف کی شکل میں چلتا رہا کہ پھر بارہ اکتوبر1999کو جنرل شب خونی کا مظاہرہ ہوا کہ جس میں فوج کے سربراہ جنرل مشرف نے ایک منتخب نواز حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔جو اہل جمہور پر گراں گزاری کہ گزشتہ بیس سالوں میں یہ دوسری مرتبہ فوجی جنرلوں کا باغیانہ عمل تھا جس نے آئین پاکستان کو چوتھی مرتبہ یرغمال کردیا تھا کہ آج پھر پاکستان اکسویں صدی میں بھی جنرلوں کے رحم وکرم میں داخل ہوا چنانچہ جنرل مشرف کے خلاف پھر جمہوری تحریکوں کا امریکہ میں آغاز ہوا۔جس کے خلاف جمہوری قوتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ابھی جنرل مشرف کے خلاف شدید ردعمل جاری تھا کہ ایک دن جنرل مشرف کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو اسٹیل ملز کے فیصلے عدالتی فیصلے پر برطرف کردیا گیا جنہوں نے پاکستان اسٹیل ملز کو اونے پونے اپنے پیاروں کے ہاتھوں بیچ دیا جس کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا۔9مارچ کو جس کے خلاف وکلاء تحریک نے جنم لیا جو اندرون اور بیرون ملک پھیل گئی آخرکار سپریم کورٹ نے چیف جسٹس قائم مقام رانا بھگوان داس کی سربراہی میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کردیا۔جس سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کے دو عہدوں کے خلاف تین نومبر2007ء کو فیصلہ دیا تو جنرل مشرف نے پاکستان کی پوری عدلیہ برطرف کردی۔جس کے خلاف اندرون اور بیرون ملک پھر تحریک زور پکڑ گئی جس کی بنیاد پر امریکہ میں بھی پاک امریکن وکلاء برائے حقوق کے زیراہتمام درجنوں احتجاجات جلسے جلوس منعقد ہوئے جس سے پاکستان کے چیف جسٹس افتخار چوہدری جسٹس وجہہ الدین، جسٹس رمدے، جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس مقبول باقر، جسٹس غوث محمد کے علاوہ وکلاء قیادت مامور خان، اعتزاز احسن ،علی احمد کرد،منیر ملک، یاسین آزاد، رانا ضیاء الرحمان، امان اللہ کنزانی، مرتضے بابر خان، شمیم ملک، راجہ مشقت اور دوسرے وکلاء حضرا نے خطاب کیا تھا جن کی انتھک جدوجہ سے پوری عدلیہ16مارچ2009کو غیر مشروط طور پر بحال ہوئی جس نے جولائی2009کو جنرل مشرف کے تمام اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ غداری قائم کرنے کا حکم دیا جس پر نواز حکومت میں عمل ہوا جس کی بنا پر چیف جسٹس وقار سیٹھ نے پھانسی کا حکم دیا تھا۔تاہم بری ایک طویل جدوجہد ہے۔جس کو پچاس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔جس میں میری صرف اور صرف پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور قانون کی حکمرانی کی خواہش ہے جس کی امریکہ اور پاکستان میں جنرلوں کی بدروحیں مخالفت کر رہی ہیں۔
٭٭٭