اس دعا سے پہلے اور اس دعا کے بعد کے سارے واقعات ایک بہترین لیڈر ایک بہترین امام ایک اعلیٰ صفت انسان کی نشان دہی کررہے ہیں،
امام اور لیڈر تو اللہ جسے چاہتا ہے بناتا ہے اپنے آپ کو ایک اعلیٰ درجے کا انسان بنانا اپنے اختیار میں ہوتا ہے اور اس کے اصلی اور نسلی ہونے کا پتہ اس کے کردار سے چلتاہے جو اپنی ذات کے لئے کم اور انسانیت کی خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے مصر سے نکالے گئے تو کمزور کی مدد کی بنا پر مدین پہنچے بے سروسامانی بھوک پیاس کی کیفیت میں کوئی پرسان حال نہیں، وہاں پر بھی جب دو کمزور عورتوں کو دیکھا تو اپنی بھوک پیاس تک کو بھول کر بغیر کسی اجر کے ان کی مدد کی اور ان سے اس کے عوض کوء سوال نہ کیا حالانکہ ان خواتین نے اپنا مسئلہ آپ سے شئیر کیا انھوں نے اپنا دکھ انتہائی عاجزی کے ساتھ اللہ سے شیئر کیا، اس یقین کے ساتھ کے مسبب الاسباب تو وہی ہے حضرت موسیٰ صرف ایک کونے بیٹھ کر بھی دعا مانگ سکتے تھے اپنی تھکاوٹ بے وطنی فقیریت کا اظہار اللہ سے کر سکتے تھے لیکن جیسے ہی انھوں نے اپنے سے کمزور کو دیکھا اپنی تکالیف پریشانیاں بھول کر ان کی مدد کرنے لگے اللہ کو ان کے یہ اعمال اتنے پسند آئے کہ دعا فورا قبول کرلی گئی کہ اس فقیر کو عزت عافیت سے گھر بیوی بچے خاندان سب کچھ عطا کردیا۔
اس دعا کی قبولیت میں ہمارے لئے بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں دعائوں کی قبولیت کے راز پنہاں ہیں حرکت میں برکت کا درس ہے پرخلوص اور بے لوث خدمت کا آخرت میں تو اجر ہے ہی دنیوی فوائد کا بھی کوئی شمار نہیں ،آج ہم روتے ہیں، دعائیں قبول نہیں ہوتیں وہ اس لئے کہ دعا کو قبولت تک پہچانے والے اخلاص بھرے اعمال ہمارے پاس نہیں ہیں، اللہ ہمیں صرف دعائیں پڑھنے پر اکتفا کرنے والا نہ بنائے بلکہ ان کے جیسے اعمال اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
٭٭٭