صدر علوی اور چیف جسٹس عطا بندیال کے بعد کیا؟

0
156
پیر مکرم الحق

ستمبر2023ء اس لحاظ سے پاکستان کیلئے اہمیت کا حامل ہے کہ اس مہینے میں صدر پاکستان ڈاکٹر علوی کے عہدے کی مدت پوری ہو رہی ہے اور چیف جسٹس عطا محمد بندیال کی ریٹائرمنٹ بھی آپہنچی ہے لیکن ابھی تک یہ سوال ہوا میں معلق ہے کہ کیا صدر موصوف خود مستعفی ہونگیں یا انہیں بھی طاقت کے زور پر کرسی سے چھڑوانا پڑیگا؟ دوسری طرف چیف جسٹس صاحب کا فیصلہ تو پی ڈی ایم کے دور حکومت میں ہوگیا تھا اور جسٹس قاضی فائز عیٰسی کو آئندہ کا چیف جسٹس نامزد کردیا گیا ہے اسلئے کوئی ابہام نہیں ہے۔ جسٹس عطا بندیال صاحب15ستمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اس کے بعد وہ سپریم کورٹ سے مکمل فارغ ہوجائیں گے۔ ان دونوں عہدیداروں کی روانگی تحریک انصاف کے لئے بھاری ثابت ہوگاا اور اس ک بعد یہ سمجھ لیں کہ یوہ پارٹی مکمل طور پر بے سہارا ہوجائیگی۔ تاریخی طور پر اگر جائزہ لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ جماعت اقتدار میں آنے کیلئے2025سال تگ و دو کرتی رہی لیکن اقتدار میں اس وقت ہی آنے کی قابل ہوئی جب مقتدر حلقوں نے انہیں سہارا دیا پھر آہستہ آہستہ جب اس سیاسی جماعت کے پیر مضبوط ہونے لگے تو یک لخت انہوں نے محسنوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ پھر انکو جھٹکادیا گیا تو بجائے باز آنے کے انہوں نے غرانا شروع کردیا پھر ان طاقتوار اداروں نے انہیں دھکے دے کر نکالا تو پھر انہوں نے سائفر کھیلنا شروع کردیا اور ساتھ میں امریکہ پر رجیم چینج کا الزام لگا کر انصاف پارفی سے انقلاب پارٹی بنانے کی کوشش کی۔ پھر انہیں احساس ہوا کہ یے کام تو غلط ہوگیا تو انہوں نے امریکہ میں ایک لابنگ کمپنی کو25ہزار ڈالر دے کر اپنے امیج کو بہتر کرنے کیلئے رکھ لیا۔ اور سابق سپسہ سالار کو میر قاسم اور میر جعفر کا نام دیکر غداری کے طعنہ دیدیئے۔ اس طرح دبائو ڈال کر نئے سپسہ سالار کی نامزدگی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کیں جب وہ بھی نہ ہوسکا تو9مئی کو کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ کروا دیا۔ جسکے بعد نئے سپہ سالار نے ڈنڈا گھمایا تو ساسوں ماں کے قدموں میں آگرے۔ اور پھر سابق ہونے والے چیف جسٹس نےGood to sa youکہہ دیا تو انہوں نے سمجھا کہ اب تو سپریم کورٹ کا سہارا مل گیا ہے اور اب سب اچھا ہے اب وہ سہارا بھی جاتا نظر آرہا ہے۔ اب معاملات بگڑے چلے جارہے ہیں ایک ایک کرکے پارٹی کے بڑے بڑے برج گرتے جارہے ہیں بقول بابراعوان کے یہ چھوڑنے والے سارے لوگ ڈبیوٹیشن پر آئے تھے واپس اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے چلے گئے ہیں(جب سرکاری افسران کو کہیں اور کسی اور دفتر میں بھیجا جاتا ہے تو اسے ڈیبوٹیشن کہتے ہیں۔ جسکے خاتمہ پر انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنی ہوتی ہے) اور جب کوئی بھی دفتر بند کیا جاتا ہے تو کچھ لوگوں کو پیچھے چھوڑا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے بند ہونے والے دفتر کے فائیلوں اور بچے کچھے سامان کی فہرست بنالیں۔ اسلئے ڈاکٹر بابراعوان صاحب دفتر کے مکمل طور پر بند ہونے تک ابھی وہی رکیں گے۔ اسی طرح مصنوعی ذہانت والے روبوٹوں کو بنانے والے سائنسدان پریشان ہوگئے ہیں کہ اگر ان روبوٹوں نے انسانوں سے بغاوت کرلی تو انسان جس نے انکو بنایا ہے ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکیں ہیں جس طرح ہمارے ملک میں مصنوعی سیاستدان بنائے جاتے ہیں یہ سوچ کرکے انکو تو ہم جیسے کہیں گے ویسے ہی یہ کرینگے لیکن پھر وہی مصنوعی سیاستدان اپنے بنانے والوں کو آنکھیں دکھانا شروع کردیتے ہیں۔ اسی لئے انسانی تاریخ محسن کشی کرنے والوں سے بھری ہوئی ہے ویسے بھی حضرت علی کا فرمان ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈروا!! ہمارے ملک کے بادشاہ گروں کو بھی سوچنا پڑیگا کہ یہ کام اس طرح نہیں چلپائے گا۔ کب تک مٹی کے بت بنا کر توڑتے رہینگے۔ جس طرح پڑوسی ملک میں لوگ نچلی سطح سے شروع ہوتے ہیں اور ایک طریقہ کار سے چلکر کر گلی محلوں کی سیاست کرکے صوبائی اور قومی سطح تک پہنچ سکتے ہیں۔ اگر ایک چائے بیچنے والا دنیا کی سب سے زیادہ آبادی ایک ارب چالیس کروڑ والی آبادی والے ملک کا وزیراعظم بن سکتا ہے تو ہم چوبیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں یہی نظام کیوں نہیں لا سکتے ہیں؟ سوچنا پڑیگا اسی لئے پڑوسی ملک والے چاند تلک پہنچ گئے اور ہم جہاں76سال پہلے تھے وہیں کھڑے ہوئے ہیں ہماری کرکٹ ٹیموں کی تعمیر اور ترقی اسی طرح کی جاتی ہے۔ محلوں اور گلیوں کے لڑے جو پہلے اپنے محلوں میں پھر دیہاتوں اور شہروں میں کھیلتے ہیں جو مرحلہ وار سیکھ کر اوپر آتے ہیں انہیں مشکلات سے مقابلہ کرنے کا گر آجاتا ہے ہم اپنی سیاست کے کھلاڑی بھی اس طرح کیوں نہیں تیار کرسکتے آج کی دنیا میں ہمیں نئے نئے طریقہ اپنا کر کامیاب ہونے کا گز آنا چاہئے ورنہ ہم دن بدن پیچھے چلے جائیں گے۔ طاقت اور جبر سے ملکی نظام نہیں چل سکتا حضرت علی کا قول ہے عدل وانصاف والے معاشرے چاہے غیر اسلامی بھی ہوں تو وہ قائم رہیں گے ظلم وجبر اور بے انصاف معاشرے اسلامی ہونے کے باوجود دیرپا نہیں رہتے صحیح بات کو اگر آپ بار بار دہراتے رہو تو پھر وہ اثر کرتی ہے شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میر ی بات۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here