قید و بند حل نہیں ہے!!!

0
95
جاوید رانا

اتوار 6 اگست کو پاکستان کے 76 ویں یوم آزادی کے حوالے سے دیوان ایونیو پر منعقدہ کلچرل پریڈ پاکستانیوں کی وطن سے محبت، اتفاق و اتحاد اور تمام سیاسی و علاقائی عصبیتوں سے ماوراء قوم کا مظہر ثابت ہوئی شکاگو میں مقیم پاکستانیوں کا وطن سے لازوال محبت اور وفاداری کا شاندار منظر پاکستان، بانیان پاکستان کیلئے نعروں اور قومی نغموں کیساتھ سبز ہلالی پرچموں کی بہار سے مثالی تھا۔ پریڈ کے مہمانان خصوصی قونصل جنرل طارق کریم اور گرینڈ مارشل نوید انور کی تقاریر نے وطن کی محبت، جذبۂ قومیت اور وفاداری کو مزید جلا بخشی اور منظر ایک متحد و یکجا قوم کا ائینہ دار تھا۔ اس تمام تر خوبصورت و خوش کُن صورتحال نے یہاں مقیم قومیتوں پر پاکستان اور پاکستانی قوم کے مثبت و روشن تاثر کو یقیناً اُجاگر کیا، لیکن کیا یہ خوش کُن صورتحال وطن عزیز میں موجودہ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور عوامی حالات کے مطابق واقعی ایک حقیقت ہے یا محض ایک رسمی، جذباتی اور روایتی سلسلے کی ایک کڑی تھی جو سات عشروں سے بھی زیادہ عرصے سے جاری ہے۔ ہم متعدد بار اس حقیقت کا اظہار کر چکے ہیں کہ ہم پاکستانی ایک قوم کے برعکس ایسا ہجوم بن چکے ہیں جس کی نہ کوئی واضح راہ ہے نہ کوئی منزل ہے، فرقہ واریت، عصبیت، علاقائیت، زبان و بولی اور سیاسی تفریق کے بھنور میں سب پھنسے ہوئے ہیں۔ مذکورہ بالا پریڈ کے گرینڈ مارشل نوید انور نے اپنے خطاب میں نہایت اہم بات کہی تھی کہ ہمیں سیاسی جماعتوں کی وابستگی سے بالا تر ہو کر اجتماعی طور پر وطن کی سلامتی، ترقی و خوشحالی اور عوام کیلئے عمل پیرا ہونا ہے۔ اس پیغام سے کوئی بھی محب وطن روگردانی کرنے کا سوچ نہیں سکتا ہے لیکن اگر وطن عزیز کی 75 سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ سچائی واضح ہے کہ پاکستان میں امور مملکت ریاست و حکومت پر کنٹرول کبھی بھی سیاستدانوں کے مکمل اختیار میں نہیں رہا ہے۔ وہ محض ایسی کٹھ پتلیاں ہی رہے ہیں اور ان کی ڈور ان تماشہ گروں کے ہاتھ میں رہی ہے جو بلاواسطہ اور بلا وابستہ وطن عزیز کے سیاہ و سفید پر حاوی رہے ہیں۔ جمہور اور جمہوریت کے پردے میں کبھی بھی عوام کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی رہی اور ان عناصر کو عوامی نمائندگی بخش دی جاتی ہے۔ جو ان اصل حکمرانوں کے ایجنڈے پر عمل کریں، آئین، قانون، عوامی و قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ان امور پر عمل کرایا جاتا ہے جو مقتدرین کے حسب الحکم و مفادات ہو اور اگر کوئی حکم سے انحراف کرے تو اسے نشان عبرت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی ہے۔ ماضی کے عوامی مقبولیت کے رہنمائوں کے حوالوں سے اختصار کرتے ہوئے آج کے عوام میں مقبول و محبوب ترین لیڈر عمران خان اور اس کی جماعت کو جس طرح زیر عتاب لانے اور اسے عوام و جمہوری عمل سے محروم کرنے کے جو غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر انسانی ہتھکنڈے، مظالم، مقدمات اور اقدامات کئے جا رہے ہیں ان سے ملک و بیرون ممالک پاکستانی نہ صرف بخوبی آگاہ ہیں بلکہ سخت نالاں و متنفر ہیں بلکہ دنیا بھر کامیڈیا، سوشل میڈیا اور منتخب شخصیات و حقوق انسانی کے ادارے تُھو تُھو کر رہے ہیں اور موجودہ مقتدرین کے اقدامات کی مذمت کر رہے ہیں ،پاکستان میں میڈیا کیلئے عمران کا نام لینا بھی شجر ممنوعہ بنا دیا گیا ہے اور خان کی حمایت کرنے والے چینل پر پابندی لگا دی جاتی ہے، اس کے لوگوں کو غائب کر دیا جاتا ہے یا گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر عمران خان کے حمایتیوں کے خلاف مقدمے قائم کئے جا رہے ہیں، انہیں اٹھا لیا جاتا ہے اور وہ ایذاء رسائیاں کی جاتی ہیں جو انسانی حوالوں سے ناقابل بیان ہیں۔ عمران ریاض خان کا معاملہ انسانیت کی بدترین مثال ہے، آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کہاں ہے، کس حال میں ہے، زندہ ہے یا خدانخواستہ اس کاانجام بھی ارشد شریف کی طرح ہوا، عمران کے وفاداروں کیساتھ بھی یہی روئیے کہ ضمانتیں ہوتے ہی گرفتار کر لیا جاتا ہے، مقصد یہی کہ کسی بھی صورت عمران کو پنپنے نہ دیا جائے۔
ظلم، نا انصافی اور آئین و انسانیت مخالف حرکات و اقدامات کا بدترین مظاہرہ تو خود کپتان کیساتھ روا رکھا جا رہا ہے کہ اسے کسی بھی طرح سیاسی منظر نامے سے آئوٹ کر دیا جائے۔ 180 سے زائد مقدمات میں ملوث کر کے اسے مجرم قرار دینے، نا اہل کرنے اور انتخابی عمل سے باہر کرنے کے ایجنڈے میں توشہ خانہ کیس میں جج ہمایوں دلاور نے مقتدرین کا آلۂ کار بن کر عمران خان کو 3 سال کی سزا سنا دی اور نا قابل یقین سُرعت سے پولیس نے خان کو اٹک جیل پہنچا دیا، وہاں کپتان کیساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے اس کی تفصیل سوشل میڈیا کے توسط سے ساری دنیا کے سامنے آچکی ہے اور موجودہ نا اہل حکمرانوں، مقتدرین کیلئے باعث ذلت و مذمت ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کی واضح ہدایات کے متعلقہ کیس کے قابل سماعت ہونے کے حوالے سے عمران کے وکلاء کو سننے کے بعد مزید کارروائی کرنے کے حکم پر عمل کرنے کے برعکس یکطرفہ فیصلہ سنایا گیا جو نہ صرف عدالت عالیہ کے حکم کی توہین ہے بلکہ قانونی طور پر غلط اور جج ہمایوں دلاور کی ذاتی پرخاش کو واضح کرتا ہے۔ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ اس کیس میں کپتان کو ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے فوری ریلیف مل جائے گا لیکن ان بدنیت و شیطانی سوچ کے حامل نا اہل حکمرانوں و منتقم مزاج مقتدرین کا منصوبہ عمران کو جیل سے باہر نہ آنے دینے کا ہے کہ جس طرح پی ٹی آئی کے دوسرے اسیروں کے ساتھ کیا جا رہا ہے اسی طرح عمران کیساتھ بھی کیا جا سکتا ہے، ایک کیس میں ضمانت ہو تو دوسرے کیس میں اسے گرفتار کر لیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ ان حرکات سے کیا عمران کے فلسفے و عزم کو اور عوام میں اس کی محبوبیت و مقبولیت کو جھٹلایا جا سکتا ہے، ہر گز نہیں، حکمرانوں کا یہ عمل عمران کو عوام میں مزید حمایت اور مقبولیت کا ثبوت بنے گا۔ اس کی تازہ ترین مثال پشاور میں تحصیل متھرا و حویلیاں (ایبٹ آباد) کے چیئرمین کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کی بڑے مارجن سے کامیابی ہوئی ہے۔ تحصیل متھرا میں گزشتہ انتخاب جیتنے والی ن لیگ 6 نمبر پر آئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران کیخلاف نا اہل حکومت اور اس کے سرپرست عمران کے عزم و استقلال اور عوامی بھرپور حمایت سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ عمران کیخلاف تمام تر سختیوں، مظالم اور انسانیت سوز اقدامات کے باوجود وقت پر انتخابات کے انعقاد سے بھاگ رہے ہیں۔ ہمارے خدشات درست ثابت ہوئے ہیں کہ موجودہ عوامی حمایت سے محروم حکمران انتخابات آگے بڑھائیں گے۔ نئی مردم شماری کی آڑ میں یہ حقیقت سامنے آچکی ہے اور یہ ہمارا اندازہ ہے کہ اگر 2024ء میں بھی الیکشن ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔ الیکشن کسی بھی وقت ہوں یہ امر یقینی ہے کہ کامیابیٔ اپنے عزم و استقامت اور عوامی حمایت کے باعث عمران کا مقتدر بنے گی۔ قید، ظلم، جھوٹے مقدمات و مخالفانہ حرکات و ہتھکنڈوں کے باوجود عمران کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئے گی اور نہ ہی اس کیلئے عوامی حمایت میں کوئی کمی آنی ہے۔ عمران قوم کیلئے ان اشعار کی تصویر و تفسیر ہے۔
لاکھ جکڑو ہمیں زنجیر و سلاسل میں مگر
اب نہ رُک پائیں گے ہم باغی جیالوں کے قدم
اب کوئی رکھ نہیں سکتا میری ملت کو غلام
جا گ اٹھے ہیں میرے دیس کے مظلوم عوام
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here