عمران خان پر حالیہ دور میں تنقید کی وجہ تو سمجھ آتی ہے کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد تو ویسے یہی ہر حکمران تنقید کا نشانہ بنتا ہے لیکن خان صاحب کے اقتدار میں آنے سے پہلے کی باتیں اور وعدے وعید اور اقتدار میں آنے کے بعد کی کارکردگی اور رویے کی فرعونیت نے حقیقت سے پردہ اُٹھا دیا ہے ۔جعلی قلعی نے ان کی اہلیت کو عوام کے سامنے ننگا کردیا۔اگر یہی عمل آہستہ آہستہ ہوتا تو شاید عوام کو اتنی حیرت نہیں ہوتی لیکن اقتدار ملتے ہی خان صاحب کے رنگ ڈھنگ کا بدلنا عوام کے لئے ایک دھچکا بن گیاکیونکہ جس شخص کو انہوں نے مسیحا سمجھ رکھا وہ توایک بدترین وبے حس حکمران ثابت ہوا۔جتنے انتخابی منشور میں وعدے کئے گئے تھے ان میں کوئی بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچا بلکہ سنگ بنیاد بھی نہیں رکھا گیاجس سے ثابت ہوا کہ ان کا کوئی ارادہ بھی نہیں تھا۔نہ پچاس لاکھ گھروں کی کوئی ایک سکیم بھی منظر عام پر نہیں آئی۔آجکل تو پریPREFABRICATEDگھروں کا دور ہے جس میں ایک اچھے بھلے مکان کے جز(Parts)پہلے سے بنا دیئے جاتے ہیں۔دیوار کے پینل اور چھت کے حصے دروازے اور کھڑکیوں کے چوکھٹ وغیرہ وغیرہ ہے۔سامان فیکٹریوں میں مشینوں کے ذریعے بنایا جاتا ہے۔چائنا کے علاوہ یورپ اور امریکہ میں کئی کمپنیاں نہ صرف کر رہی ہیںبلکہ پچاس لاکھ گھروں کیلئے وہ کمپنیاں حکومت کے ساتھ شراکت پر تمام بڑے شہروں میں ایسی فیکٹریاں بھی لگا سکتی تھیںلیکن نہ اس کام کی فیزیبلٹی بنی نہ کوئی پی سی ونPCIکوئی اجلاس تک وزیراعظم کی صدارت میں بھی نہ ہو۔وزیراعظم کو اپنی وزارت کی تشکیل کے بعد سب سے پہلا کام تو یہ کرنا تھا کہ مشہور عمل کیلئے کابینہ کی ایک موثر کمیٹی بنا کر90/100دن میں پارٹی منشور کی چیدہ چیدہ نکات پر عملدرآمد کیلئے ایک کمیٹی بناتے جن کے ہفتہ وار اجلاس کی صدارت بھی خود کرتے تاکہ کم ازکم وقت میں زیادہ سے زیادہ عملدرآمد ہوسکتالیکن انکو تو نمبر گیم میں بندے کو پورے کرنے سے ہی فرصت نہیں ملی۔بہرحال وہ وقت گزر گیا۔اب تو آٹا چینی اور دال کے بحران کا شکار ہے۔پاکستان، کل تک جو لوگ عمران خان کی تعریفوں کے پل باندھتے تھکتے نہیں تھے آج انکے بڑے نقاد ہیںاور شدید تنقید کے نشانے پر ہیں،ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو کچھ ماضی کی چند اہم ترین شخصیات نے عمران خان کے متعلق جو پیشگوئیاں کی تھیں آج وہ حقیقت کا روپ دھارتی نظر آئی ہیں۔کل کی کرکٹ کی دنیا کا ہیرو، فلاح ادارے شوکت خانم ہسپتال کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے والا عمران خان جو سیاست کو ایک گالی سمجھتا تھا۔وہ کس طرح سیاست میں آیا نہیں لایا گیا۔سابقہ گورنر سندھ ہمدرد دواخانہ کے خالق اور مالک برصغیر کے ایک نامور حکیم محمد سعید کی شخصیت ایک غیر متنازعہ حیثیت میں ہمدرد دوخانہ میں حکمت بھی کی اور سیاست میں بھی ایک بردبار دور گزارا۔1998ء میں انہوں نے اپنی کتاب جاپان کی کہانی صفحہ113میں یہ انکشاف کیا ہے کہ مغربی طاقتیں مشہور کرکٹر کو پاکستان کے سیاسی اُفق پر لانے کیلئے بڑی بھاری رقوم دیکر میڈیا کی معرفت منظر عام پر لا رہے ہیںجس کو اسرائیل کی حمایت بھی حاصل ہے(یاد رہے کہ جمائما خان کے والد گورلڈ سمتھ ایک مشہور اور امیر برطانوی یہودی بزنس مین تھے)جن کے قریبی مراسم بھی تھے۔اسرائیلی حکمرانوں کے ساتھ یاد رہے کہ حکیم سعید کے نہ تو کوئی سیاسی عزائم تھے۔نہ ہی خان صاحب سے کوئی سیاسی رقابت!حکیم سعید سے پہلے ڈاکٹر اسرار احمد ایک مستند مذہبی اسکالر نے بھی حکیم سعید کے انکشاف سے دو سال پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ عمران خان کا انتخاب کرلیا گیا ہے کیونکہ ایک عالمی شہرت کے حامل عمران خان کا جنہوں نے اسلام کی بات کی تو ان سے بہتر کون ہوسکتا ہے۔بظاہر ڈاکٹر اسراراحمد کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں تھا لیکن ایک مذہبی اسلامی اسکالر کی حیثیت سے وہ بین الاقوامی سیاسی منظر پر گہری نظر رکھتے تھے۔1995ء میں جب عمران خان نے تحریک انصاف کی داغ بیل ڈالی تھی۔کوئی سیاسی تجزیہ نگار انکی حکومت کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔اس وقت ڈاکٹر اسرار نے الیوماناٹی ایک بین الاقوامی شیطانی تنظیم جوکہ یہودی خفیہ جماعت فری میسن کا ایک مزاد خفیہ روپ ہے۔انہوں نے عمران خان کو مستقبل کے پاکستانی حکمرانی کیلئے چن لیا ہے۔یہ انٹرویو1994ء میں ریکارڈ ہوا ہے اور یوٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے۔2011ء میں عبدالستار ایدھی نے ایکسپریس ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ جنرل حمید گل اور عمران خان نے بینظیر بھٹو کے آخری دور میں انہیں انکے ساتھ ملکر محترمہ کی حکومت گرانے کیلئے ساتھ دینے کیلئے دبائو ڈالا انکار پر انہیں اُٹھا کر لے جانے کا کہا وہ(ایدھی) لندن چلے گئے۔
٭٭٭