خدا بھلا کرے اُن لوگوں کا جنہوں نے مجھے کبھی اِس جنونی کیفیت میں مبتلا کرنے کی کوشش نہ کی کہ میں بھی اپنے گھر میں پاکستانی ٹی وی کے چینلز کو لگوالوں اور دِن بھر اُردو کے ڈراموں کو دیکھ دیکھ کر اپنا دماغ خراب کروں، خدا بھلا کرے ہمارے بھتیجے کا جس نے میرے گھر میں ایک عدد اُردو کے کیبل کو لگوادیا تاکہ میں آوارہ گردی کرنے کے بجائے گھر میں بیٹھ کر اردو کے ڈراموں کو دیکھتا رہوں، اُن کی بیخ کنی ، اُن کے پرزے اُڑائوںاور اُس پر بے جا یا بجا تنقید کروں،بہرکیف چند دِن کی مہم جوئی کے بعد ہی میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے ڈرامہ دیکھتے وقت کاغذ اور پنسل کو ساتھ رکھنا چاہئے ، کیونکہ بیشتر ڈراموں میں آٹھ یا دس کردار ایک ساتھ پیش کئے جاتے ہیں لہٰذا مجھے کاغذ پر لکھنا پڑتا ہے کہ یہ دلگداز بدن کی صراحی جیسی کمر رکھنے والی لڑکی جو ہے اُس کا چکر کسی اور کے ساتھ بھی چل رہا ہے، اور اُس کا بوائے فرینڈ بھی کسی اور کے ساتھ مستی کرتا ہے، صرف یہی نہیں بوائے فرینڈ کی امّی بھی اپنے لئے کوئی امیر گھرانے کے صاحب کو ڈھونڈ رہی ہیں، اُنہیں ایک صاحب مل جاتے ہیں ، لیکن اُن کے بھی آٹھ بچے جوان ہیں، اُن میں سے ایک لڑکا کسی شخص کو گولی مارنے کی وجہ کرجیل میں بند ہے، پاکستانی ڈرامہ کو دیکھ کر یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں مال غنیمت کی کوئی کمی نہیں ہے، ہر گھر میں سونے کیلئے بیڈ اتنا وسیع و عریض ہوتا ہے جس کے سائز کا یہاں ایک جامع ماسٹر بیڈ روم دستیاب ہے، اتنے بڑے سائز کے بیڈ کو یہاں کے کسی ماسٹر بیڈ روم میں رکھ دیا جائے تو نہ ہی کارپٹ کی کوئی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی رنگدار فلور کی. ڈرامہ کو دیکھ کر ایک اور بات کا پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں کوئی کام کاج نہیں کرتا، صبح ہوتے ہی لڑکیاں عشق و محبت کی باتیں شروع کردیتی ہیں، عورتیں ایک دوسرے کے بال کو کھینچنا یا کسی کو بھر پور طمانچہ رسید کر دیتی ہیں. جنہیں دیکھ کر میں بھی کان پکڑتا ہوں کہ چلو اچھا ہوا میں پاکستان میں نہیں ہوں ، ورنہ مجھے بھی کوئی نہ کوئی طمانچہ ضرور رسید کر دیا ہوتا،شاید اِن ہی ڈراموں کو دیکھ کر پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اِس نتیجے کو اخذ کر لیا ہے کہ پاکستان میں نہ کوئی غربت ہے اور نہ کوئی مہنگائی، اب کوئی بھی اِس کا شور کرے تو اُسے اُردو کے ڈراموں کو دیکھنے کا مشورہ دیا جائے. پاکستانی ڈراموں کو دیکھ کر مجھے سخت حیرانگی ہوئی کہ وہاں مرد بھی روتے ہیں، ایک بندہ تو صرف اِس لئے رو رہا تھا کہ اُسے عشق میں ناکامی کا شبہ ہورہا تھا، دوسرا اپنی محبوبہ کی بیوفائی پر نالاں تھا اور رو رہا تھا، شاید کسی نے یہ سوچا بھی ہے کہ اِن ڈراموں کو دیکھ کر بالغ یا نا بالغ ذہن پر کیا اثر پڑیگا ؟ سوچنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں فی الحال تو میں جو ڈرامہ دیکھ رہا ہوں وہی گذشہ رات بھی دیکھا تھا، کم ازکم اُس پر نشر مکرر کا لیبل لگادینا چاہئے تھا۔لیکن ڈرامہ ”خواب ٹوٹ جاتے ہیں ” اپنے اندر کچھ سیاسی فلسفہ کو پنہاں کیا ہوا ہے، کیونکہ میں بنگلہ دیش کی سر سبز زمین ، اُسکے سبزہ زار ، اُسکی ہریالی اور دریاؤں میں کشتیوں کے مناظر کو تا ہنوز اپنے ذہن میں مرتسم کیا ہوا ہوں ، میں ابھی بھی بنگالیوں کے خلوص ، اُن کی شگفتگانہ انداز گفتگو، اُن کی بھائی چارگی کا قائل ہوں ، اِسلئے مجھے یہ حق حاصل ہے کہ بنگلہ دیش پر بنائے ہوے کسی بھی ڈرامہ یا فلم پر تنقید کروں جس میں انسانیت کی بنیادی اصولوں کی دھجیاں اُڑائی گئیں ہوں،اِسی لئے میں ”ہم” چینل پر ”خواب ٹوٹ جاتے ہیں” جو انتہائی پبلسٹی کے ساتھ پیش کیا جارہا تھااُسے دیکھنے کیلئے ملے جلے جذبات کے ساتھ ٹی وی کے سامنے براجمان ہوگیا، کیونکہ بنگلہ دیش پر بنی ہوئی کوئی کہانی میری ذاتی کہانی ہے، میں خود کو اُس کا ایک کردار سمجھتا ہوں. لیکن ” خواب ٹوٹ جاتے ہیں ” کو دیکھ کر مجھے سخت مایوسی ہوئی، ڈرامہ میںلوگوں کی بستیوں کو جلاتے ہوے ، اُنہیں قتل کرتے ہوے کے مناظر کو دکھاکر پروڈیوسر یا کہانی نویس نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا بلکہ پاکستانی و بنگلہ دیشی کے مابین نفرت و دشمنی کی چنگاریوں کو مزید جلا بخشا ہے، ڈرامہ ”خواب ٹوٹ جاتے ہیں” میں جگہ جگہ مکالمے کی غلطیاں مجھے نظر آئیں مثلا” ڈھاکہ یونیورسٹی کے اندر بنگالی طلبا کو بنگلہ دیش کا پرچم لئے نعرہ لگاتے ہوے دکھایا گیا ہے، لیکن اُن کی نعرہ بازی اُردو میں تھی، جو ایک ناقابل قبول غلطی تھی، پاکستان میں بنگالی زبان جاننے والے یابنگلہ دیش کی تاریخ کے عینی مشاہدیوں کی کوئی کمی نہیں اگر اُن کی خدمات حاصل کرلیں جاتیں تو ڈرامہ ”خواب ٹوٹ جاتے ہیں ” مزید حقائق پر مبنی ہوتا۔ہمیں اِس حقیقت کو فراموش نہ کرنا چاہیے کہ بنگالیوں نے پاکستانیوں یا پاکستان کو جتنا نقصان پہنچا یا اُس سے کہیں زیادہ اُنہوں نے خود اپنے ہم زبان ، ہم مذہب بنگالیوں کو قتل و غارت کے گرداب میں دھکیلا ہے، سقوط ڈھاکہ سے قبل ہی 400 کے قریب بنگلہ دیشی جن میں بنگالی تھنک ٹینکس، دانشور، تجزیہ نگار اور مورخ شامل تھے اُن کا صفایا کرکے بنگلہ دیش کو عقل و شعور سے لاوارث ملک بنا دیا گیاتھا، باقی رہی سہی کثر 15اگست 1975 ء کے خونین انقلاب نے پورے کردئیے ، جس میں ایک ماہ کے دوران عوامی لیگ کے ایک ہزار سے زائد پایہ کے رہنما موت کے گھاٹ اُتار دئیے گئے تھے، جس کی وجہ کر بنگلہ دیش مکمل طور پر ایک سوچ و فکر سے عاری ملک بن گیا لہٰذا ہمیں اِس اُمید کا دامن نہ چھوڑنا چاہئے کہ برصغیر ہندوپاک کی تاریخ ابھی نہ مکمل ہے ، بنگالی ہندو نہیں ہیں اور بنگلہ دیش میں وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کسی بھی لمحہ پاش پاش ہوسکتی ہے، 1975ء سے لے کر آج تک وہاں 16 کے قریب فوجی بغاوت کی سرکوبی کی جاچکی ہے۔