سیاست میں نفرت کا زہر!!!

0
386
جاوید رانا

ماہ ربیع الاول کا آغاز ہو چکا ہے، وہ مبارک و مقدس مہینہ جب محبوب رب العالمین اس دنیا میں تشریف لائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپۖ کو رحمت العالمین قرار دیا اور ہمارے آقائے کائناتۖ ساری کائنات کیلئے امن و محبت کا مجسم عملی نمونہ ثابت ہوئے، فتح مکہ کے بعد عام معافی حتیٰ کہ حضرت حمزہ کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو بھی معاف کر دیا گیا۔ ہماری ان سطور کے تحریر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دین کے نام پر قائم ہونیوالی مملکت میں انصا ف کے نام پر جو ظلم کے سلسلے جاری ہیں اس ماہ مبارک میں بھی ان کا نفاذ انصاف کے نام پر بدستور جاری ہے۔ 9 مئی کے حوالے سے تحریک انصاف کے قائدین، کارکنان اور معصوم عوام کی گرفتاریوں اور سزائوں کا انصاف کے نام پر ظلم و نا انصافی کا گھمسان تھم نہیں رہا، سوموار کو فیصل آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے رانا ثناء اللہ کے ڈیرے پر حملے کے جرم میں 59 پی ٹی آئی رہنمائوں و کارکنوں کو دس سال اور 16 کو تین سال کی سزائیں اور 34 کو بری کر کے ظلم و نا انصافی کی ایک اور مثال قائم کر دی، یہی نہیں چار روز قبل علیمہ خان کے دونوں بیٹوں شاہ ریز اور شیر شاہ کو 9 مئی اور ریاست مخالف پروپیگنڈے کے الزام میں گرفتار کر کے ظلم اور عمران مخالف ایجنڈے پر ریاستی جبر کو ثابت کر دیا گیا ہے۔
اس تمام تر صورتحال پر بہت سوال اُٹھتے ہیں، اول یہ کہ علیمہ خان کے بیٹے اگر 9 مئی کے واقعے میں ملوث تھے تو ان کی گرفتاری 25 مہینوں تک کس لیے ٹالی گئی یا یہ اقدام اس وجہ سے کیا گیا کہ علیمہ خان عمران کے مؤقف و ایجنڈے کے ابلاغ کی وجہ سے طاقتور وں کو کھٹک رہی تھیں۔ کسی ماں کے ایک بیٹے پر افتاد پڑے تو فطری طور پر اس پر پہاڑ گر جاتا ہے یہاں تو دونوں بیٹوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔ سوچیں کہ علیمہ خان پر کیا گزر رہی ہوگی۔سوال یہ بھی کہ عمران خان اور اس کے رفقاء و حامیوں کیخلاف 9 مئی کے حوالے سے دہشتگردی کا الزام لگا کر جو انتقامی اور انصاف کے نام پر نا انصافیاں کی جا رہی ہیں ایسی کوئی مثال ماضی میں کہیں نظر آتی ہے؟ شہید بھٹو کے خلاف پی این اے کے احتجاج میں سرکاری و پیپلزپارٹی رہنمائوں پر حملوں، املاک کو آگ لگانے حتیٰ کہ پارٹی کارکنوں کو قتل کرنے کے باوجود نہ کوئی گرفتاریاں ہوئیں نہ عدالتیں لگیں۔ فیصل آباد میں پیپلزپارٹی رہنمائوں مولانا ضیاء القاسمی اور ملک احمد سعید اعوان و میاں محمود الحسن ڈار پر حملے کئے گئے، گھر نذر آتش کئے گئے، پیپلزپارٹی کے حامیوں کی دوکانیں جلائی گئیں، کراچی میں پیپلزپارٹی کے اللہ بندہ اور سندھ کے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے خٹک کو کھمبوں سے باندھ کر پھانسیاں لگائی گئیں لیکن شر پسندوں کیخلاف نہ کوئی ایف آر کٹی نہ عدالتیں لگیں کیونکہ بھٹو کیخلاف ان شر پسندوں کو مقتدرہ کی سپورٹ حاصل تھی۔ یہی نہیں سپریم کورٹ پر ن لیگیوں کے حملے کو لیں تو اس کیس میں اختر رسول اور طارق عزیز وغیرہ کو سزائیں ہوئیں، اصل منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کیخلاف کچھ نہ ہوا، نیب کے دفتر پر پتھرائو پر بھی کسی کا بال بیکا نہ ہوا کیونکہ مقتدروں سے انڈر اسٹینڈنگ تھی۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالموں میں بھی اس امر کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران کی جڑ خان اور موجودہ مقتدرہ سربراہ کی ذاتی چپقلش کا شاخسانہ ہے جو تم نہیں یا ہم نہیں کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ مقتدرہ کے اختیار اور چاپلوسوں کے اشتراک کے سبب یہ چپقلش ظلم و بربریت، نا انصافی کی انتہاء ہے اور اس ایجنڈے پر پہنچ چکی ہے کہ عوام کی بھرپور سپورٹ اور مینڈیٹ کے باوجود خان کو کسی بھی طرح سیاسی ایرینا سے باہر رکھا جائے، سزائیں اور ایوانوں سے منتخب اراکین کا اخراج اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، ہمارا یقین ہے کہ ظلم کا انجام بہت ہی بھیانک اور خطرناک ہوتا ہے، لیکن یہ یقین بھی ہے کہ ظلم ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے اور اسے ہر حال میں مٹنا ہی ہوتا ہے اور تاریخ کا سیاہ باب بن جاتا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ ظلم کی اعانت کرنیوالوں کا آج بہتر بھی ہو جائے مستقبل اور عاقبت نہیں سنور سکتے ہیں۔ ہمارے اصلی مقتدر اور ان کے بیساکھی برداروں کو اپنے کردار کو سوچنا ہوگا۔ سیاسی ناچاقی وطن و قوم کیلئے کسی بھی طرح فائدہ مند نہیں،
کہیں پر ظلم کے شعلے کہیں پر خود پرستی ہے
چمن کی آبرو خطرے میں ہے یہ بات سچی ہے
وہ کھولا زہر نفرت کا سیاست نے فضائوں میں
گلوں کی آنکھ سے شبنم لہو بن کر ٹپکتی ہے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here