حج کی مبارک ہو!!!

0
471
رعنا کوثر
رعنا کوثر

آج جب میں یہ مضمون لکھ رہی ہوں۔تو ذوالحج کی 7تاریخ ہے۔دو دن بعد حج ہے اب سے کئی سال پہلے جب میں نے حج کیا تھا تو فروری کا خوبصورت مہینہ تھا۔حاجی پورے مکے مدینے میں بھرے ہوئے تھے۔تل دھرنے کی کہیں بھی جگہ نہیں ملتی تھی۔ہر جگہ مختلف رنگ قوم اور نسل کے لوگ دکھتے اور ہر مقام پر اپنے لیے جگہ نکالنا بڑا ہی مشکل ہوتا۔آج حالات نے کچھ یوں پلٹا کھایا ہے کے حج پر جانے کے لیے چند لوگوں کو اجازت دی گئی ہے۔مکہ اور مدینہ کی گلیاں حاجیوں سے خالی ہیں۔ہاں اللہ کے گھر کا طواف ہمیشہ سے جاری تھا اور جاری رہے گا۔مگر حاجیوں کی تعداد بے حد کم ہے۔جب میں حج کرکے آئی تھی تو میں نے لکھا تھا کے حج ایک مشکل عبادت ہے۔کیونکہ وہاں جتنا مجمع ہوتا تھا اس حساب سے وہاں ہر طرف لائن لگی ہوتی تھی ہمیشہ دھکے کھا کر اور ایک دوسرے کو دھکا دے کر ہی اکثر جگہوں پر اپنے لیے جگہ بنانی پڑتی تھی۔شاید یہ اتنی مشکل عبادت نہ ہو جتنی لوگوں کے جمع ہونے کی وجہ سے ہو جاتی تھی۔حج کرنے کے بعد سکون تو بہت ملتا تھا مگر کیونکہ خدا کی ہر عبادت باعث سکون وراحت ہی ہے۔مگر حج کرتے وقت بہت مسائل کا سامنا ہوتا تھا طواف کریں یا نہ کریں۔راستے میں سفر کرکے منیٰ جارہے ہوں کے کہیں اور اتنا ٹریفک ہوتا تھا کے ایک گھنٹے کا راستہ کئی گھنٹوں میں طے ہوتا تھا۔ایسے میں ایک پرسکون عبادت ایک مشکل عبادت میں بدل جاتی تھی۔حج ایک ایسی عبادت ہے۔جس میں بہت سارے ارکان ہیں اور مسلمان کو سفر کرکے اپنے رب کے گھر خانہ کعبہ جانا پڑتا ہے۔اس عبادت کو دوسری قوموں سے ممتاز رکھا گیاہے کیونکہ کوئی بھی دوسرا مذہب خانہ کعبہ کا طواف کرنے کو نہیں کہتا۔اسی منفرد عبادت کو جو زیادہ تر لوگ زندگی میں ایک دفعہ ہی کرتے ہیں۔لوگوں کے بے پناہ رش نے انتہائی مشکل بنا دیا تھا۔خاص طور سے غریب لوگوں کے لیے لوگ کھو جاتے تھے۔بوڑھے باہر میدان میں بیٹھے ملتے غریب ملکوں سے لوگ انہیں جھوٹ بول کر لاتے اور صبح کی رہائش ہوتی نہ کھانا پینا امیر لوگ سات ہزار ڈالر بھی خرچ کرکے جاتے تو بھی ہزار شکایتیں لے کر واپس آتے۔جب کے بار بار توبہ بھی کر رہے ہوتے کے حج پر اللہ نے بلایا ہے کچھ نہیں کہنا ہے مگر بندوں کی حرکتوں کی وجہ سے حرف شکایت زبان پر آہی جاتا۔نہ جانے اتنے زیادہ لوگوں کو حج کی اجازت کیوں دی جاتی تھی۔کے نظام ہی خراب ہوجاتا تھا۔اب انتہائی نظم وضبط سے کام ہورہا ہے۔باقاعدہ ہر حاجی کا معلوم کیا جارہا ہے۔طواف کے اوقات اور باریاں لگائی جارہی ہیں پہلے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوتے تھے کے حج طاقت ور کے بیٹے ہے۔اس لیے کے جس کے پاس طاقت ہوتی تھی وہ ہر وقت طواف کرتا نظر آتا کوئی کچھ کہنے سننے والا نہ تھا۔اور کمزور بوڑھا بیمار ایک دفعہ طواف کرتا۔شاید اب جب حالات بدلیں تو ہم سب ایک نظم وضبط کو اپنائیں۔سعودی حکومت شاید اب سوچ سمجھ کر لوگوں کو حج کی طواف کی سعی کرنے کی اجازت دیں۔اور ہم حج کو اتنی مشکل عبادت نہ سمجھیں جتنی بنا لی گئی ہے۔
ہم مایوس ہیں کے حج کے موقع پر وہ رش وہ مجمع کیوں نہیں مگر مجھے تو یوں لگتا ہے کے اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے اور وہی ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے عدل وانصاف واپس لاتا ہے۔ہر سال کی طرح اس سال بھی حج کرنے والوں کو”حج مبارک ہو”۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here