عالمی سازشوں کا جال!!!

0
165
جاوید رانا

عید قرباں گزر گئی، کرونا کے باعث فریضۂ حج کی ادائیگی کی سعادت مقامی ساٹھ ہزار خوش نصیبوں نے پائی، اللہ رب العزت ان عبادات کو مبرور فرمائے۔ آمین۔ قارئین کرام! ہم نے اپنے پچھلے کالم کا اختتام آزاد کشمیر میں ہونیوالے انتخابات کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں غدار جیسے الفاظ اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے سے گریز کی اپیل کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ عالمی سطح کے ایسے ایشوز پر سیاست سے گریز کیا جائے، جو پاکستان کیلئے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ افسوس کہ ہماری اپیل صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوئی اور حکومتی و مخالف جماعتوں کی خُونہ بدلی نتیجتاً علی امین گنڈا پور کو الیکشن کمیشن سے سندیسہ مل گیا کہ وہ فوری طور پر آزاد کشمیر کی انتخابی سیاست سے نکل جائے، لیکن کیا اس شخص نے ایسا کیا؟ ہر گز نہیں، ہماری ان سطور کے تحریر کئے جانے تک تو علی امین گنڈا پور اپنی تمام تر حرکتوں کیساتھ پی ٹی آئی کی انتخابی مہم شریک رہا بلکہ اپنی جُگتوں اور تلخ کلامی سے بھی باز نہیں آیا ہے، دوسری جانب فردوس عاشق اعوان کے بقول جعلی راجکماری مریم نواز کے تیر و نشتر بھی وزیراعظم کیخلاف رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
دُکھ کی بات ہے کہ ہمارے سیاسی زعماء کشمیر کے حوالے سے ایک دوسرے کو غداری کا سرٹیفیکیٹ دیتے ہوئے اس حقیقت کو بھی پیش نظر نہیں رکھتے کہ کشمیر گزشتہ 73 برس سے ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ترین عالمی ایشو ہے اور مودی کی 5 اگست 2019ء کی ناپاک و شیطانی حرکت کے بعد نہ صرف مظلوم کشمیریوں بلکہ پاکستان کیلئے بھی ملکی سالمیت و بقاء کیلئے اہم ترین ہے۔ بھارت کی پاکستان دشمن سرگرمیوں اور امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے تناظر میں خطہ کی صورتحال کے باعث پاکستان کو داخلی و خارجی محاذوں پر جن مشکلات کا سامنا ہے اس کا اندازہ صرف گزشتہ ہفتے کے واقعات سے ہی بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں دہشتگردی کی سرگرمیاں اور عسکری جوانوں کی شہادتیں، داسو تھرمل کی گاڑی کا حادثہ اور 9 چینی انجینئرز کی ہلاکتیں، پاکستان کی جانب سے بلائی گئی افغانستان کے حوالے سے کانفرنس کا التواء اور پاکستان میں افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ تشدد کا ڈرامہ، اشرف غنی کا اپنے سفیر کو واپس بلانے کا اقدام یہ صرف اور صرف پاکستان کے خلاف بھارت اور افغان حکومت کے پاکستان مخالف ایجنڈے اور خطہ میں موجود ریاستوں کے اتحاد کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے مقاصد کا حصہ ہے، اس سارے سلسلے کے پس پُشت دنیا کی طاقتور ترین ریاست اور اس کی ذیلی ریاستوں کی سوچ کار فرما ہے کہ افغانستان میں متحارب گروپس برسرپیکار رہیں، بد امنی جاری رہے، جس کے بدترین اثرات کا شکار پاکستان ہو سکتا ہے۔
اُزبکستان میں جنوبی و وسطی ایشیائی ریاستوں کے اجلاس میں افغان صدر اشرف غنی نے اپنے خطاب میں پاکستان پر طالبان کی حمایت اور در اندازی کا گھنائونا الزام لگایا، وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر نہ صرف اشرف غنی کو منہ توڑ جواب دیا بلکہ افغان امریکہ جنگ کے حوالے سے پاکستان کے معاشی و معاشرتی نقصانات اور انسانی جانوں کی شہادتوں کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان کی پُر امن افغانستان کیلئے کوششوں کا احساس بھی دلایا، وزیراعظم نے واضح کر دیا کہ طالبان سے مذاکرات اور امن کا معاملہ امریکہ کے انخلاء سے قبل تمام فریقین کو بٹھا کر ممکن ہو سکتا تھا، اب جب طالبان سبقت لئے ہوئے ہیں تو وہ کیوں مذاکرات پر راضی ہونگے۔ اشرف غنی کی یہ حرکت بلا سبب نہیں تھی بلکہ راء اور NDS کے پاکستان مخالف گٹھ جوڑ کی کڑی تھی جس میں INA کے نمائندے نے سوال کر کے ” کیا دوستی اور دہشتگردی ساتھ چل سکتے ہیں” عمران خان کو الجھانے کی کوشش کی، عمران خان نے فوری جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم تو کافی کوشش کرتے ہیں کہ پڑوسی کیساتھ محبت سے رہیں لیکن RSS کا نظریہ بڑی رکاوٹ ہے، بھارتی نمائندے کے غبارے سے ہوا نکال دی، پاکستان کیخلاف سازشی ہتھکنڈوں کا یہ سلسلہ تھمنے والا نظر نہیں آرہا ہے، ایک جانب چینی انجینئرز کی ہلاکتوں کا واقعہ جس کی وجہ سے نہ صرف چینی حکومت میں پاکستانی وزیر داخلہ، وزارت خارجہ اور وزیر اطلاعات کے متضاد بیانات نے شک و شبہ پیدا کیا بلکہ داسو ڈیم پر کام کرنے والی چینی کمپنی نے بھی کام بند کر دیا۔ حد یہ کہ داسو واقعہ کی تحقیق اور حقائق جاننے کیلئے پندرہ رکنی ٹیم کی آمد اس بات کا عندیہ ہے کہ پاکستان پر چین کا اعتماد متزلزل کرنے کی کوشش کرنے میں نادانستہ طور پر پاکستانی حکومتی ترجمانوں کے بیان بھی ایک وجہ ہے۔ بادی النظر میں یہ حادثہ بھی بھارتی اور افغان حکومت کی ریشہ دوانی کا نتیجہ ہے۔ سونے پر سہاگہ افغان سفیر کی بیٹی پر تشدد کا ڈرامہ اور اس کا پول کُھل جانا، یہ سارے واقعات اور اس کیساتھ ہی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کا بیان کہ بھارت پاکستان کیخلاف دبائو بڑھانے میں کامیاب رہا اور پاکستان کو بھارت کے کہنے پر فیٹف گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا، اس حقیقت کا واضح اشارہ ہے کہ پاکستان کیخلاف عالمی سازش کا جال بچھایا جا رہا ہے۔
ان تمام تر حقائق کی روشنی میں ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان کیلئے یہ مشکل وقت ہے۔ اس کڑے وقت میں اگر ہماری سیاسی قوتیں آپس میں ہی دست و گریبان رہیں گی اور غیر ذمہ دارانہ بیانات پر عمل پہرا رہیں گی تو پاکستان دشمن سازشوں کی بالواسطہ ہی سہی آلۂ کار بن جائیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواہ آزاد کشمیر کا الیکشن ہو یا دشمن کی دہشتگردانہ سرگرمیاں یا افغان امن کے معاملات، ہماری تمام سیاسی قوتیں بشمول حکومت و ادارے اپنے بیانیوں اور اقدامات پر ایک پیج پر ہی رہیں تاکہ ہمارا کوئی بھی عمل دشمنوں کیلئے ہی نہیں دوستوں کیلئے بھی شیم پیج نہ بن سکے۔ موجودہ عالمی خصوصاً افغانستان کی صورتحال اور بھارت کی مکارانہ سازشوں پر وزیراعظم کی زیر صدارت سول و عسکری قیادت اہم اجلاس میں متعدد فیصلے کئے گئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی دیگر سیاسی قوتوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔ قومی مؤقف اور فیصلوں کی ترجمانی بھی متعینہ و متعلقہ افراد ہی کریں، درجنوں ترجمان اپنی اپنی بولیاں بولنے سے گریز کریں۔ وقت کی نزاکت اور پاکستان کو کسی بھی ناگہانی یا افتاد سے محفوظ رکھنا محض حکومت یا عسکری اداروں کی نہیں، پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ جلسے، جلوس، الیکشن اور دشنام طرازیوں کی بجائے ملی اتفاق و اتحاد ہی عالمی سازشوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔ پاکستان کی سالمیت اولین قومی ترجیح ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here