اسلام آباد(پاکستان نیوز) سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کے ممکنہ تصادم کے خلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت میں کہا ہے کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے جس کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں ہے، سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز سیاسی جماعتوں کے ممکنہ تصادم کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے اہم رہنما بھی عدالت پہنچے، جن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے مولانا فضل الرحمن، بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل شامل تھے۔ دورانِ سماعت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس بی سی اے) کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ حکم میں کہا تھا کہ سندھ ہاس پر حملے کے علاوہ کوئی واقعہ نہیں ہوا، اسپیکر قومی اسمبلی نے 25 مارچ کو اجلاس طلب کرنے کا کہا ہے، آئین کی دفعہ 95 کے تحت 14 روز میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا لازم ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہے کہ کسی ایونٹ کی وجہ سے کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ ہو، ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل نے کہا کہ قواعد کے مطابق 25 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہوگی، تحریک عدم اعتماد پر فیصلے تک اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی نہیں ہوسکتا، رول 37 کی خلاف ورزی صرف بے ضابطگی نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تمام اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے، بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کریں گے، سپریم کورٹ نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے، عدالت اب تک اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی، عدالت صرف چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو، یہ تمام نکات اسپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔ دریں اثنا پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا نوٹس عدالت میں پیش کیا اور کہا کہ اسپیکر نے آئین کی خلاف ورزی کرکے آئین شکنی کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن پر آئین کا آرٹیکل 6 لگا ہے پہلے ان پر عمل کروا لیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے، اس آرٹیکل کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے جس کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے، سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بار چاہتی ہے کہ ارکان جس کو چاہے ووٹ ڈالیں، بار اگر زیادہ تفصیلات میں گئی تو جسٹس منیب اختر کی آبزرویشن رکاوٹ بنے گی، سوال یہی ہے کہ ذاتی پسند پارٹی مقف سے مختلف ہو سکتی یا نہیں؟ وکیل ایس بی سی اے نے کہا کہ تمام اراکین اسمبلی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے۔ بار ایسوسی ایشن کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 91 کے تحت ارکان اسپیکر اور دیگر عہدیداروں کا انتحاب کرتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ تو بتا دیں؟ جس پر وکیل نے آرٹیکل 66 کا حوالہ دیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 66 کے تحت ووٹ کا حق کیسے مل گیا؟ یہ آرٹیکل تو پارلیمانی کارروائی کو تحفظ دیتا ہے، آرٹیکل 63 اے کے تحت تو رکن کے ووٹ کا کیس عدالت آسکتا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ووٹ کا حق کسی رکن کا ابیسولیوٹ (قطعی) نہیں ہوتا، آپ تو بار کے وکیل ہیں آپ کا اس عمل سے کیا تعلق؟ بار ایسویشن عوامی حقوق کی بات کرے۔ بار کے وکیل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد بھی عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ تحریک عدم اعتماد سے بار ایسوسی ایشن کو کیا مسئلہ ہے؟ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہونی چاہیے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار پوچھ رہے ہیں کہ سندھ ہاس میں کیا ہوا؟ عدالت نے صرف آئین پر عمل کروانا ہے؟ سپریم کورٹ بار کے وکیل تیاری سے نہیں آئے، بار کو سندھ ہاس پر بات کرتے ہوئے خوف کیوں آرہا ہے؟ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بار کو عدم اعتماد کے حوالے سے کیا تحفظات ہیں، بار کے وکیل کو سن چکے ہیں اب آئی جی اسلام آباد کو سنیں گے، آئی جی صاحب کیا دفعہ 144 لگ گئی ہے؟ جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اسلام آباد میں پہلے سے ہی دفعہ 144 نافذ ہے، ریڈ زون کے اطراف تک دفعہ 144 کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق 42:5 بجے 35 سے 40 مظاہرین سندھ ہاس پہنچے۔ آئی جی نے بتایا کہ مظاہرین جتھے کی صورت میں نہیں آئے تھے، دو اراکین اسمبلی سمیت 15 افراد کو گرفتار کیا گیا۔