یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا سارے لوگ سہم کر رہ گئے تھا ، میں نے دِل میں سوچا کہ چلو جی اتنے سارے سہانے خواب جو دِل میں بسائے ہوے تھے وہ سب کے سب اب چکنا چور ہوجائینگے ، میں نے جلدی میں جتنی دعائیں یاد تھیں اُن کا ورد کرنا شروع کردیا لیکن شک وشبہات دِل و دماغ پر غالب تھے کہ آیا دعائیں قبول ہونگیں بھی یا نہیں کیونکہ میں بھی غفلت میں اُس طرح پاک و صاف نہ تھا جتنا کہ مجھے ہونا چاہیے تھا ، ہمارا طیارہ یکے بعد دیگر جھٹکے سے لرز رہا تھا ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے ایک اور طوفانی جھٹکا لگے گا ور طیارہ غوطہ کھاتے ہوے سمندر میں ڈوب جائیگا ،میں اور طیارے کے سارے مسافر اٹلانٹک اوشین کے ٹھنڈے پانی میں لرز لرز کر موت کی نیند سوجائینگے، ساری کی ساری احتیاطی تدبیریں کہ طیارے کے فلاں فلاں دروازے ایمرجنسی کے وقت کھول دیئے جائینگے ، اِنفلیٹیبل کشتیاں بھی حاضر ہوجائینگی اور سارے مسافر اُس پر سوار ہو کر اپنی جانیں بچالینگے ، ایسا کارنامہ تو صرف فلموں میں دیکھا جاسکتا ہے، سب سے اول تو یہ کہ طیارہ اگر کسی میدانی یا پہاڑی علاقے میں ڈائیو مارتا یا دیدہ و دانستہ طور پر کسی ندی میں اتار لیا جائے تو شاید امید کی کچھ کرنیں باقی رہتیں، لیکن اگر طیارہ گھنٹوں کی مسافت طے کرنے کے بعد گہرے سمندر کے اوپر تیر رہا ہو تو کیا خاک امیدیں باقی رہ سکتیں ہیں ،مجھے اچھی طرح علم ہے کہ سارے مسافر خوفزدہ تھے ، کچھ نے تو طیارے کے دروازے کو کھولنے کی طبع آزمائی بھی شروع کردی تھی ، ائیر ہوسٹسیں جو خوبصورت اور دلکش مسکراہٹوں سے آپ کو خوش آمدید کہتیں ہیں اور مجھے تو خاص طور پر اپنے بدن کو لمس کرنے سے بھی گریذ نہیں کرتیں اُنہیں پائلٹ کے حکم پر ڈنر پیش کرنے سے روک دیا گیا تھا ، یہ ایک حقیقی معنوں میں ایمرجنسی کا وقت تھا ، آئندہ منٹ میں کیا ہو، کوئی اُس کا تصور کرنے سے بھی گریذاں تھا.لیکن خدا کا شکر ہے کہ پائلٹ نے طیارے کو قابو میں لانا شروع کردیا ، میں جو گھر سے ڈنر کھا کر نہ نکلا تھا اُس کا انتظار کرنے لگا لیکن سب سے اولا” جومیری خواہش تھی کہ کس طرح طیارہ لینڈ ہو اور میں باہر نکل کر اطمینان کا سانس لوں ، اُسی روٹ پر میں متعدد مرتبہ پی آئی اے سے سفر کرچکا ہوں ، لیکن ایسا خوفناک تجربہ کبھی نہیں ہوا ہے ، حقیقت واضح ہے کہ پی آئی اے کے پائلٹس دنیا میں سب سے زیادہ مستعد اور تجربہ کار ہیں لیکن اب امریکا میں نہ پی آئی اے کی کوئی سروس ہے اور نہ ہی کوئی پرواز، حتی کہ اُن کی خدمات بھی فروخت کردی گئی ہیں ،یہ ہے ہمارے نئے سفر نامہ کا مختصر نامہ ابو ظہبی کے ویکیشن نے میرے ذہن کے بہت سارے پردوں کو چاک کرنا شروع کردیا ہے اور میں اِس کی ترقی و خوشحالی کو پاکستان کی معاشی تنزلی کی تناظر میں دیکھتا ہوں۔
ہونا تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ جس طرح امریکا کی معاشی ترقی کی وجہ کر میکسیکو کی قسمت بدل کر رہ گئی ہے اُسی طرح ابو ظہبی اور دبئی کی سونا اُگلنے والی معشیت کی بدولت پاکستان کی معشیت کو بھی چار چاند لگ جانا چاہیے تھا لیکن ابوظہبی تیل کی پیداوار کی وجہ کر دنیا کے سارے ترقی یافتہ ملک کو پیچھے چھوڑ کر ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے جسے دیکھ کر صرف حسد و جلن کے سواکچھ اور نہیں ہوتا ، متحدہ عرب امارات کی سال
2020 ء میں مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) 359 بلین ڈالر تھی جس نے ساری دنیا کے ریکارڈ کو توڑ دیا تھا . آج اُس میں اضافہ ہو کر 498 بلین ڈالر ہوچکا ہے ، صرف کنسٹرکشن کے پروجیکٹس آج 350 بلین ڈالر کے گرد محیط ہیں ، متحدہ عرب امارات کے شہر ابو ظہبی کو دیکھ کر آنکھیں چکا چوند ہو جاتیں ہیں ، گذشتہ پانچ سال میں جتنی بلند و بالا عمارتیں وہاں تعمیر ہوئیں ہیں اُس نے امریکا اور یورپ کے کسی بھی ملک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ، ابوظہبی ائیر پورٹ سے فلک بوس عمارات کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ تقریبا” 50 میل کے فاصلے تک جاتا ہے اور پھر بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ، امریکا کی شاید ہی کوئی بڑی کارپوریشن ہوں یا ہوٹلز اُس کی شاخیں ابو ظہبی میں نہ ہوںیہی وجہ ہے کہ امریکی و برطانوی وہاں
دندناتے ہوے نظر آتے ہیں. ابو ظہبی کی شیخ الذائد گرانڈ مسجد میں چا لیس ہزار نمازی سما سکتے ہیں ، ابوظہبی صرف معاشی ترقی میں انتہائی سبک رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے بلکہ ثقافتی اور سیاحت کے شعبے میں بھی
ترقی کرکے ملک کی معاشی ہدف کو پورا کر رہا ہے ، قصر الوطن کی عمارت جو ابو ظہبی کے صدارتی محل کا ایک حصہ ہے خوبصورتی میں اپنا ثانی ثانی نہیں رکھتی، دنیا میں شاید ہی اِس کے مقابلے میں کوئی اور ہال یا ثقافتی مر کزموجود ہو ، اِس کی تعمیر کیلئے ابو ظہبی نے اٹلی سے ایک پورا ایمیریٹ کا پہاڑ خرید لیا تھا، خوبصورتی ، گرد و پیش کے مناظر اور جائے وقوع کے اعتبار سے اِس کی عمارت تاج محل کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔
ابو ظہبی اپنے پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ملک بھر میں ڈی سالینیشن پلانٹ کا جو جال بچھادیا ہے وہ بھی شاید ہی کسی اور ملک میں موجود ہو ،اِس مد میں ابو ظہبی کو سالانہ 3.2 بلین ڈالر سے زائد کی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے ، کراچی میں بھی ایک ایسا ہی ڈی سالنیشن پلانٹ موجود ہے جو منوڑا اور اِس کے گردو نواح کے علاقوں کے پانی کی کمی کو پورا کرتا ہے لیکن فوری طور پر دو مزید ڈی سالینیشن پلانٹ کی اشد ضرورت ہے ،حقیقت یہ ہے کہ پاکستانیوں نے ابوظہبی کی تعمیر میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ، لیکن آج بھی وہ ایک اجنبی کی طرح اِس ملک میں مقیم ہیں، نہ ہی اُنہیں مستقلا”رہائش کی سہولت دستیاب ہے اور نہ ہی تجارت کرنے کی. حتی کہ وہ ابو ظہبی شہر میں کوئی مکان یا جائداد خریدنے کے بھی اہل نہیں ہیں۔