آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!!!
ابھی پچھلے ہفتہ ہی اردو ادب کی ایک معروف شخصیت سلمان یونس ہم سے جُدا ہوئے ابھی تو وہی غم مندمل نہیں ہوا تھا کہ ہیوسٹن کی ایک اور مذہبی، سماجی متقی شخصیت جو ہیوسٹن کی جان تھے جنہوں نے ہمیشہ لوگوں کوجوڑے رکھا ہر کسی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھا کوئی بھی ان کے پاس جاتا اور اپنی درخواست رکھتا وہ صرف یہی پوچھتے کہ کتنے چاہئیں اور چیک کاٹ کر دے دیتے تھے وہ تھے ہمارے محسن رضی نیازی بھائی جن کو اچانک دل کی تکلیف ہوئی اور اس دار فانی سے کُوچ کر گئے۔ نمازی ایسے کہ شاید ہی کوئی نماز قضاء ہوئی ہو تمام نمازیں با جماعت پڑھتے تھے، مسجد غوث الاعظم جو کہ نارتھ کی سب سے خوبصورت مسجد ہے جس خوبصورتی سے اس کی تعمیر کی مسجد کے اندر جاتے ہی دل کو سکون ملتا ہے۔ ان کی اللہ تعالیٰ کے گھرسے محبت اور وقت آخر جو کچھ رہا ہسپتال میں لوگوں نے دیکھ لیا کہ جب ان سے وینٹی لیٹر ہتائی جا رہی تھی تو وہاں موجود فیملی نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کر دیا اور لوگوں نے دیکھا اور کہا کہ دیکھو رضی بھائی بھی ہونٹ ہلا رہے ہین اور کلمہ پڑھ رہے ہیں ایسے شخص کیلئے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ یقیناً جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر فائز ہونگے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اصل چیز موت ہے کون شخص اس زندگی کو کس کس انداز سے گزارتاہے۔ جس شخص نے موت کو مقدم رکھا اور اپنی زندگی کو موت کے تابع گزارتا رہا وہ اس دنیا میں کامیاب رہا اور آخرت میں بھی کامیاب رہا۔ آخرت کا گھر ہی ان لوگوں کیلئے ہے جو متقی ہیں۔ مومن کیلئے تو دنیا قید خانہ ہے اور کافر کیلئے جنت ہے جو موت کو مقدم رکھ کر سوتے ہونگے، جو خرچ کرتے ہونگے، اللہ کے گھر بھی بنائے ہونگے تو مقدم موت ہوگی۔ اللہ والوں کی خدمت کرتے ہونگے، غریبوں کی مدد کرتے ہونگے تو مقدم موت ہوگی۔ چیرٹی کرتے ہونگے۔ ماں کی خدمت صلہ رحمی کرتے ہونگے تو مقدم موت ہوگی۔ ادارے بنائے ہونگے مقدم موت اگر یہ سب کچھ ہو تو مثال صرف اور صرف رضی نیازی بھائی کی بنتی ہوگی ایسی زندگی گزاری کہ زندگی بھی رشک کرتی ہوگی ان کے شب و روز گھر سے مسجد اور مسجد سے گھر تھے ہر وقت مسجد کی تعمیر میں لگے رہتے تھے انہوں نے خوبصورت مسجدیں بنائیں وہ چوتھی مسجد بھی بنا دیتے اگر اس مسجد کا مقدمہ نہ چل رہا ہوتا۔ مگر ہماری بد نصیبی یہی ہے کہ مسلکوں کے چکر میں اللہ کے گھر بھی نہیں بننے دیتے، خدا ہم سب کو ہدایت عطاء فرمائے۔ جب اللہ کا بندہ دنیا سے جاتا ہے تو اس کے سارے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے ان تین اعمال کے۔ 1۔ صدقہ جاریہ۔ 2۔ علم کی درسگاہ۔ 3۔ نیک صالح اولاد، یہ تو حدیث ہے اور اس پر بھی ہمارے رضی نیازی بھائی پورے اُترتے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں سب کے سامنے ہے۔ صدقہ جاریہ کیلئے 3 مساجد ۔ علم کے ادارے اور سب سے بڑھ کر نیک اور صالح اولاد قاری مکرم نیازی جو کہ بہت ہی با ادب اور غوث الاعظم مسجد میں امامت بھی کراتے ہیں اس کا ثواب رضی بھائی کو پہنچتا رہیگا۔ اور یہی امید کی جاتی ہے کہ ان کے صاحبزادے مکرم نیازی اپنے والد کی طرح ان کی تمام تر خواہشات کو پورا کرینگے کیونکہ بہت ساری باتیں رضی بھائی نے اپنے صاحبزادے کو بتا دی تھیں۔ اور سب سے بڑھ کر ذکی نیازی بھائی جو کہ رضی بھائی کے بڑے بھائی ہیں جو اپنے چھوٹے بھائی سے بہت محبت کرتے ہیں وہ ان کے ان تمام معاملات کو خوش اسلوبی سے ادا کرینگے۔ رضی بھائی ہر سال 20 خوش نصیبوں کو عمرہ کی ادائیگی کرواتے تھے۔ تمام مساجد میں دل کھول کر چندہ دیتے تھے اب تمام تر ذمہ داری ہمارے علماء اکرام علامہ افضال قادری، علامہ سعید الحسن جن کے ذمہ مسجد فاطمة الہزرا اور مسجد علی کے المرتضیٰ کے کئی معاملات ان کے مشن کے مطابق چلاتے رہیں۔ مسجد غوث الاعظم میں تو قاری سید اسماعیل ہمدانی اور مکرم نیازی موجود ہیں۔ رضی بھائی نے اپنے کارکن بھی چھوڑے ہیں جو ان کیساتھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی حوصلہ عطاء فرمائے۔ دوستوں میں ایاز خان اور شاہد علی سنی نمایاں ہیں۔ ہماری بھی سرپرستی کرتے رہتے تھے بڑی محبت کرتے تھے ان کا ہر جمعرات کا معمول تھا چاہے کچھ بھی ہو اپنی والدہ کی قبر پر ضرور جاتے تھے ،اس جمعرات کو ناغہ کیسے ہوتا ان کو جمعرات کے روز ہی ماں کے قدموں میں تدفین کی گئی اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی ان کی خواہش کو پورا کیا۔ اور کیا لکھوں وہ کیسے انسان تھے ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ، حضورۖ سے محبت اتنی تھی کہ جب بھی موقع ملتا وہ عمرہ کیلئے چلے جاتے تھے مدینہ منورہ سے بے حد محبت تھی ہر وقت تسبیح پڑھتے رہتے تھے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور تمام دوست احباب و لواحقین کو صبر و جمیل عطاء فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭