بنانا ریپبلک میں بندر بانٹ!!!

0
95
کامل احمر

اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ بنانا ریپبلک کیا ہوتا ہے اور اس کا کیا مطلب ہے تو ہم کہیں گے پاکستان اس کی بہترین مثال ہے اور یہ نیا پاکستان پچھلے دو ماہ میں تشکیل دیا گیا ہے اور اس کا مطلب ہے ایک جنگل جو بندروں سے بھرا ہے۔شاید آپ نے کبھی کسی جنگل میں اتنے بندر نہیں دیکھے ہونگے۔جتنے پنجاب اور سندھ کی حکومت کے جنگل میں ہوں۔جن کی خصلت دونوں ہاتھوں میں انکی من پسند کھانے کی اشیاء ہوں اور لے لے کر بھاگ رہے ہوں۔دبئی، لندن اور امریکہ میں سندھ کے سیاسی بندروں کا تو کچھ پوچھیں ہی نہ۔مراد علی شاہ جیسے گھٹیا سیاستدان کہتے ہیں ملک میں نئی قانون سازی کے نتیجے میں اگر گورنمنٹ کا کوئی ادارہ چوروں اور ڈاکوئوں کا احتساب کرے گا۔تو اسے پانچ سال کی سزا ہوگی مطلب یہ کہ لوٹ مار جاری رہے گی بس اس فرق سے کہ کوئی کوتوال نہیں ہوگا اور ہوگا تو زرداری اور اُدی ہونگے۔شرجیل میمن اور آغا سراج ان کی عدم موجودگی میں فیصلے کرینگے اور اپنی مرضی کے قانون بنائینگے۔بندر بانٹ ہوگی اور ہوتی رہے گی۔
عمران خان نے چھ دن دیئے ہیں یا دیئے گئے ہیں اور ان چھ دنوں میں بلاشرکت غیرے پنجاب میں یا پاکستان میں اسمبلیوں میں قانون میں تیزی سے ترمیم ہوگی ،اس تیزی سے کہ میڈیا(اے آر وائی اور بول) ان کو پکڑ نہیں سکے گا اس چھ دن پر سوال ہی سوال ہیں۔مختصریہ کہ اب پورے پاکستان پر بندر اور انکی سیاست مسلط ہوگی اور یہ سارا کام دونوں صوبوں کے بندروں کی رضا مندی سے ہوگا تاریخ پڑھیں تو آپ کو دنیا کے کسی ملک میں بندروں کی سیاست یا حکمرانی نہیں ملے گی۔بندر کی دو خصلتیں مشہور ہیں۔کیلوں سے بھرا جنگل مل جائے تو ایک دن میں کھا کھا کر ننگا کردیں اور جب پیٹ بھرلیں تو پھر بچے کچے کیلوں کو ایک دوسرے پر ماریں اور تباہ کردیں۔ایک اور خصلت کہ بندر درختوں کی شاخیں پکڑ کر ہوا میں جھولتے ہوئے شیر اور چیتے کو چیت مارتا ہے تھوڑی دیر کے لئے یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ شیر چیتے(جنرلز، کرنلز) جنہیں، دشمنوں کے لئے خونخوا ہونا چاہئے۔بندروں کی چیتیں کھا چکے ہیں اور کھا رہے ہیں اور اس بنانا ریپبلک میں کچھ چالاک لومڑ(عدلیہ)ہیں جو وقتاً فوقتاً کمزور شکروں بازوں اور ہاتھیوں کو تھپکی دیتے رہتے ہیں اور بندروں کو منع کرتے رہتے ہیں کہ محکموں میں ردوبدل نہ کریں، لسٹ فراہم کرو لیکن چالاک بندر جو پہلے ہی دہائیوں سے لومڑ کو دھمکا چکے ہیں اپنا کام بڑی تیزی سے کر رہے ہیں۔نتائج آپ کے سامنے آرہے ہیں اور آتے رہینگے اور عوام کو ہر روز لال بتی کے پیچھے لگایا جاتا رہے گا۔جیسے ایک وقد جس میں حکومت(بنانا ریپبلک) کے ارکان یا رکن بھی شامل ہیں پاکستانی امریکن کے ساتھ مل کر اسرائیل گئے ہیں مذاکرات کے لئے اس میں صرف اتنا ہی وزن ہے۔کہ یہ کامNGOکرتی ہیں۔اور پاکستانی امریکن کے اسرائیل اور یہودی لابیAIPAC(امریکن اسرائیل پبلک افیسر کمیٹی)سے مفاد وابستہ ہیں بزنس، امپورٹ امریکی سیاست میں نامزدگی بڑے اسکولوں میں بچوں کے داخلے اور ملازمتیں یہ بھی ایک دوسرے اقسام کے بندر ہیں اور پڑھے لکھے ہیں بہت سے طب کے پیشے سے وابستہ ہیں اور پہلے یہ بناسپتی تھے یعنی پاکستان سے تعلیم لے کر آئے تھے اور سیاست کرتے تھے یا ہلا گلا کرتے تھے، پیٹ بھرتے تھے۔انڈیا سے نامی گرامی سنگر یا اداکاروں کو بلا کر تین تین دنوں تک محفلیں سجاتے تھے، بڑے شہروں کے بڑے ہوٹلوں میں مشاعرے بھی کرواتے تھے۔اور اب انکی نوجوان نسل ان کو بائے بائے کرکے اپنی پہچان بنانا چاہتی ہے یہ لوگ بھی بیرون ملکوں سے ڈگری لے کر آئے ہیں۔ ڈاکٹری کے پیشے سے وابستہ ہیں ،بس اپنا راستہ بھول گئے ہیں اور بندر بانٹ میں لگ گئے ہیں بندروں کو ایک اور قسم بھی ہے جو پاکستانی ہیں اور انکا تعلق فارمیسی سے رہا ہے ان کو یہ بندر بانٹ سوٹ کرتی ہے کہ وقت ہے انکے پاس لیکن طب جیسے معتبر پیشے کو بندر بانٹ(سیاست) کسی طور پر سوٹ نہیں کرتی۔معافی چاہیںگے کہ ہم اپنے موضوع سے دوسرے جنگل میں چلے گئے، موضوع تھا پاکستان(بنانا ریپبلک)جہاں انصافی کو انصاف میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
پیٹرول پر حکومت کی طرف سے دی گئی رعائت مقیم جو ضروری تھی کہ پاکستان کے غریب عوام پیٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں کے بوجھ کے تلے دوسری اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔نتیجہ میں معاشی بدحالی عام انسانوں کو چوری اور دوسرے جرائم کی طرف لے جانے میں مددگار ہوتی ہے۔قرة العین حیدر کی شہرہ آفاق ناول”آگ کا دریا” میں لکھا تھا۔”ریاست اس کیفیت کا نام ہے جہاں دروازے(گھروں اور عدلیہ) کھلے چھوڑ کر سو سکتے ہوں اور ملکیت فرض اور سزا کی بنیاد پر ریاست قائم ہوتی ہے۔ڈنڈ یعنی سزا نہ ہو تو طاقتور کمزور کو اس طرح کچلیں جس طرح بڑی پچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے۔مہا بھارت کی اس کتاب میں لکھا تھا کہ انسان خطرناک حد تک حریض اور تشدد پسند ہے۔”
آخری جملہ پاکستان میں بگڑتے حالات کی عکاسی کرتا ہے دوسرے معنوں میں جنگل کا قانون چل رہا ہے ملک جانوروں بلکہ خطرناک جانوروں کے ہاتھ میں ہے اور روکنے والا خاموش بیٹھا تماشہ دیکھ رہا ہے یا پھر اسکے ہاتھ پائوں باندھ دیئے ہیں وہ اس چور سے بھی زیادہ بزدل ہے جیسے چوکیدار صرف ہاتھ باندھ کر پولیس کو لینے گیا ہے اور وہ بھاگ نہیں رہا۔آپ کسی بھی زاویئے سے دیکھیں یہ ہی سوچ جنم لیتی ہے کہ غریب عوام کو چوروں ڈاکوئوں اور ساہوکاروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اوپر اللہ ہے اور لوگوں کا ایمان ڈگمگا رہا ہے۔اپنے سیانوں سے بچپن میں ایک سنسکرت کہاوت سنی تھی۔یارہ سال بعد گھورے کے بھی دن بدل جاتے ہیں”گھورے کا مطلب کوڑے ڈالنے کی جگہ لیکن پاکستان کے حالات75سالوں میں تباہی اور بربادی(ہر طرح کی) کی طرف گئے ہیں اور جاری ہیں کوئی پرسان حال نہیں تو ہم امریکہ اور مغرب کو کیوں مورد الزام ٹہرائیں۔
باجوہ صاحب کو بھی ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے وہ اپنے اور اپنے ساتھیوں کے سینے پر تمغے اور رنگ برنگی پٹیاں سجاتے رہیں۔اپنے منہ میاں مٹھو بنتے رہیں بندروں کی رہنمائی کرتے رہیں دوسرے معنوں میں اپنا پیٹ بھرتے رہیں زرداری اور نون لیگ کی گالیاں کھاتے رہیں کہ انکے نزدیک ذلت اور عزت میں ثقافت مشکل ہے کہ ایک ڈاکو دوسرے ڈاکو کو کیا کہے گا یہ بندروں کی لڑائی ہے کوئی بڑا کوئی چھوٹا کوئی سرخ کوئی بھورا۔زبان سب کی ایک ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here