گزشتہ دنوں ایک جنازے میں عجیب منظر سامنے آیا۔ خواتین بین کر رہی تھیں، تم وہاں جا رہے ہو جہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے، نہ بجلی ہے نہ پانی ہے، نہ روٹی ہے نہ کھانا ہے، نہ سکون و آرام ہے نہ بستر ہے، بس مشکل اور سختی ہی ہے، ہائے تیرا کیا بنے گا۔ جنازے میں شامل ایک بچے نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر گھبرا کر کہا، امی گھر چلو لگتا ہے یہ پاکستان جا رہے ہیں، کہنے کو تو یہ محاوراتی منظر نامہ ہے لیکن غائر نظر سے دیکھا جائے تو وطن عزیز کے موجودہ حالات کی واضح تصویر ہے جہاں عام افراد انہی حالات کا سامنا کر رہے ہیں جن کا تذکرہ اوپر آیا ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کے پنڈت جن کی سیادت نیابت و سیاست عوام کی بہتری و سپورٹ سے مشروط ہے عوامی مفادات پر توجہ دینے کے برعکس اپنے مفادات و حصول حکمرانی کیلئے باہم جوتم پیزار اور ایک دوسرے کو نیچا و ناکام بنانے کے اقدامات میں لگے ہوئے ہیں۔ اخلاقیات، تحمل و برداشت کا جنازہ نکل چکا ہے، ہرزہ سرائی، جھوٹے سچے دعوئوں اور حق حکمرانی کیلئے ہر جائز و ناجائز راستہ و عمل اپنایا جا رہا ہے، مذہب کے نام پر ایک دوسرے کیخلاف کُھل کر کینہ پروری کا اظہار عمومی عمل بن چکا ہے، اللہ رب العزت کے پاس کینہ پرور کی بخشش نہیں ہے۔
عوام کی بہتری اور پُرسکون زندگی کیلئے عملی اقدامات کے برعکس، ان کے حوالے سے نعرۂ زنی اور اپنی برتری و قوت ثابت کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ تمام حرکات محض کسی ایک جماعت یا سیاسی قیادت تک ہی نہیں ہیں بلکہ ہر جماعت اور قیادت اس میں بلا تخصیص سرگرم ہے۔
وطن عزیز کی موجودہ صورتحال ایک ایسا معمہ بن چُکی ہے جس کا کوئی واضح حل نظر نہیں آتا ہے، سیاسی شطرنج کی بساط اس قدر گنجلک ہو چکی ہے کہ بقول غالب”کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اقتدار کے چکّر میں سیاسی سودے بازی اور جوڑ توڑ عروج پر ہے۔ کل کے حلیف آج حریف نظر آرہے ہیں اور عہدوں و پیسوں کے لالچ میں داغ مفارقت پر تُلے بیٹھے ہیں۔ مغلظات اور دشنام طرازی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائے یہ وقت کا اصول بن چکا ہے، میڈیا کے توسط سے تابڑ توڑ حملے کئے جاتے ہیں۔ اپنی عوامی طاقت و برتری دکھانے کیلئے جلسے، مارچ، دھمکیوں اور دائوںکے انبگار لگائے جاتے ہیں اور ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ نفرت کی اس آگ کو بھڑکانے کیلئے سیاسی وابستگی و مفادات سے جُڑا ہوا میڈیا بھی کوئی کسر نہیں رکھ رہا ہے۔ میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اور اس کا کردار بے لاگ و غیر جانبدار ہونا چاہیے لیکن ہمارے وطن کا میڈیا اپنی اغراض، مفاداتی پالیسیوں اور ریٹنگ کے جنون میں نہ صڑف جانبداری کے ہیجان میں مبتلا ہے، بلکہ اس حد تک بھی چلا جاتا ہے جہاں ملک، آئین، ریاستی و انتظامی معاملات پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اداروں کو متاثر کرنے میں ہماری سیاسی اشرافیہ بھی پیچھے نہیں اور اپنی غرض کے تناظر میں ہر حد سے گزرنے پر تُلی رہتی ہے۔
سیاست میں ہنگامہ آرائی اور تماشہ بازی اور حکومتی و اپوزیشن کا کھیل یوں تو ہر دور میں رہا ہے اور اس میں نادیدہ قوتوں و عناصر کا پس پُشت کردار بھی امر واقعی ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے وطن عزیز کی سیاست میں کتے، بلی جیسا بیر جاری و ساری ہے اور نوبت اپوزیشن کی تحریک اعتماد تک جا پہنچی ہے۔ قارئین ٹی وی اور سوشل میڈیا کے توسط سے لمحہ بہ لمحہ اس حوالے سے آگاہی حاصل کر رہے ہیں لہٰذا اس کی تفصیل میں جائے بغیر صرف یہ عرض کرتے چلیں کہ اس حوالے سے حکومت کے گرائے جانے اور حکومت کے تسلسل کیلئے جو موشگافیاں، پیشکشیں ہو رہی ہیں انہوں نے سن 50ء کی دہائی میں ہونیوالی سیاسی بدعملیوں اور سازشوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومتی اراکین، نمائندوں و گروپوں کو آئندہ کیلئے پُرکشش پیشکش، مالی فوائد کے لارے وعدے اور حکومت کی جانب سے اپنے معتمد و قریب ترین ساتھیوں کی اہم عہدوں کی قربانی اور حلیفوں کو پیشکش، اپوزیشن کے عہدیداروں و ارکان سے توڑ جوڑ اور بیرونی طاقتوں کیلئے اپوزیشن کے ملوث ہونے کے شواہد کے دعوئوں کو اپنی اپنی کامیابی کا ذریعہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ہر دو جانب سے یہ تاثر دینے کی تاویلیں دی جا رہی ہیں کہ فیصلہ ساز ان کی حمایت میں ہیں۔ بات یہ ہے کہ حکومت برقرار رہے یا اپوزیشن اپنے ارادوں میں کامیاب ہو، عوام کو اس سے کیا سروکار ہو سکتا ہے، ان کی ترجیح تو یہ ہے کہ ان کو درپیش مشکلات دور ہوں اور وہ بہتر و خوشحال اور پُرسکون زندگی گزار سکتے ہوں لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ حکومت رہے یا چلی جائے اور دوسرے حکمران آجائیں، ہونگے سب وہی پرانے اور آزمائے ہوئے چہرے جو ہر دور میں کسی نہ کسی طرح سیاست کے کھیل میں رہے ہیں اور عوام کی نہیں اپنی بھلائی و خوشحالی کیلئے عمل پیرا رہے ہیں، عوام ان کیلئے صرف اتنے ہی اہم ہیں کہ یہ سیاسی جغادری ان کے ووٹوں سے کامیابی حاصل کر سکیں۔
جہاں تک موجودہ تحریک عدم اعتماد اور حکومت کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے نتائج یا فیصلے کا تعلق ہے ممکنہ طور اس کے حوالے سے اگلے ہفتے تک سب کچھ سامنے آجائے گا لیکن کیا اس کے بعد عوام مہنگائی، بدحالی اور کسمپرسی سے نجات حاصل کر پائیں گے یا وہ پروفیسر منظر ایوبی کے اس شعر کو ہی دہراتے رہیں گے،
کیا اسی واسطے آنگن میں لگایا تھا درخت
رات دن سر پہ برستے ہوئے پتھر دیکھوں
تاہم ہمارا مؤقف اب بھی یہی ہے کہ جمہوریت کی گاڑی کو سکون کی پٹڑی پر ہی چلنے دیا جائے، بالفرض خان کیخلاف اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب بھی ہو جاتی ہے(جس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں) تو وہ مزید طاقت اور مقبولیت سے آئندہ انتخاب میں کامیاب ہوگا کیونکہ اس کا ووٹ بینک مستحکم ہے، جبکہ عمران ہٹائو مہم میں مجتمع اپوزیشن اس مہم کے بعد منقسم ہو جائیگی اور ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں لازماً پھوٹے گی۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ سرزمین پاک کو برائی، ہر بلا اور مصیبت سے اپنے حفظ و امان میں رکھے اور وہ قیادت عطاء فرمائے جو وطن اور عوام کیلئے مخلص و با عمل ہو۔ آمین۔
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
٭٭٭