وطن نہیں تو تم بھی نہیں!!!

0
17
جاوید رانا

ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ حالات اُس نہج پر پہنچ چکے ہیں جو ستر کی دہائی میں تھے کہ جہاں ایک قبر اور دو افراد کے معاملے پر ذوالفقار علی بھٹو شہید کو لحد میں اُتار دیا گیا تھا اور آئین و جمہوریت کی دھجیاں اُڑا کر آمریت کا بھوت عوام کے سر پر ناچتا رہا تھا، یہی نہیں جمہوریت کے نام پر 85ء میں غیر جماعتی تماشہ لگا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی تھی۔ قارئین کو یقیناً یاد ہوگا کہ محمد خان جونیجو کو جمہوریت کی اصل روح کے مؤقف کی بنا پر وزارت عظمیٰ سے ہٹا کر انہی کٹھ پتلیوں کو لایا گیا تھا جو آج بھی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر رقص کر رہی ہیں اور ان کا اپنا کوئی اختیار ہے نہ ہی عوام میں ان کی جڑیں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی، معاشی یا عوامی استحکام مفقود ہے دوسری جانب پی ٹی آئی و مقتدرہ ہی نہیں عدلیہ اور مقتدرہ کے درمیان بھی عدم اعتماد کے سبب پرخاش کی نوعیت پوائنٹ آف نو ریٹرن کی جانب بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک جانب تو سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے تو دوسری طرف عوام کی معاشی تکالیف خصوصاً بجلی کے بلوں اور IPP کپیسٹی چارجز کی وجہ سے اس وقت حالات مزید ابتر ہوئے ہیں اور متذکرہ بالا تثلیث کے تنازعے میں مزید سیاسی کردار بھی متحرک ہو گئے ہیں، جماعت اسلامی کا دھرنا اور مطالبات کا فوری منظور ہونا اور ٹی ایل پی کا چیف جسٹس کیخلاف قتل کا فتویٰ لایعنی نہیں، حالا ت کی مزید ابتری اور عدم استحکام کی پیش بینی ہے۔ ہم نے گزشتہ کالم کے اختتام پر شعر کے توسط سے زندہ قوموں کے حوالے سے ربط باہم، محبت و رواداری کو بنیاد بتایا تھا لیکن ہنوز دلی دور است، گزشتہ ہفتے کے امور و واقعات پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ریاست، مقتدرہ، حکومت، عدلیہ اور سیاسی اشرافیہ یا تو اپنی ہٹ یعنی ضد پر قائم ہے یا خوف میں مبتلا ہے، دوسرے الفاظ میں غیر یقینی کی صورتحال میں مزید شدت آئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے معاملے میں 41-30 کا کھیل کر معاملہ عدالت عظمیٰ کے کورٹ میں ڈال دیا ہے، مقصد کیس کو التواء میں ڈال دینے کے سواء کچھ نہیں، دوسری جانب محتاج حکومت اپنا دھڑن تختہ ہونے کے خوف سے پارلیمان میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کیخلاف غیر پارلیمانی اقدام اٹھانے کیلئے متحرک ہو گئی ہے، اس مقصد کیلئے اتحادیوں کے تمام اراکین و سینیٹرز کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی گئی ہے اور انہیں محدود کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بالفرض پارلیمان اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی ہے تو اس عمل سے کیا مقتدرہ و عدلیہ تنازعہ مزید گھمبیر نہ ہو جائیگا؟ بات یہیں تک محدود نہیں، حالات کی بہتری کیلئے کپتان کی جانب سے مفاہمتی پیغام دیئے جانے اور پی ٹی آئی و اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اتحادی حکومت کی جانب سے دراڑ ڈالنے کی سازش کے افشاء کئے جانے کے باوجود مقتدرہ کی جانب سے خاموشی ظاہر کی جا رہی ہے کہ بہتری کا کوئی راستہ اختیار کرنے کے برعکس یہ طے کر لیا گیا ہے کہ عوام کے حق رائے دہی کی کوئی حیثیت نہیں، نہ ہی حقیقی عوامی نمائندوں کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ ہے، خواہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق ٹریبونلز اور جسٹس طارق جہانگیری اپیلوں پر پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ کریں ان پر عمل نہیں کیا جائیگا۔ اگرچہ بعض تجزیہ کار اور تبصرہ نگار مؤقف اختیار کر رہے ہیں کہ نومبر میں نئے چیف جسٹس کے تقرر کے بعد حالات تبدیل ہو سکتے ہیں اور فروری کے انتخابات کو کالعدم قرار دے کر نئے انتخابات کرائے جا سکتے ہیں، مگر ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ کیا اصل حکمران (مقتدرین) اس پر متفق ہونگے کیونکہ یہ انا کی جنگ ہے اور اس طرح کی جنگ میں فتح زور آور کی ہی عموماً ہوتی ہے ماسوا کہ فریقین کے درمیان کچھ دو، کچھ لو کے مطابق راہ ہموار ہو۔ فی الوقت ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ ہر فریق اپنے مؤقف پر اٹل نظرئیے اور رویوں میں لچک کا کوئی امکان نہیں رکھتا۔ ہمیں خدشہ ہے کہ حالات کا بگاڑ اس حد کو نہ پہنچ جائے جہاں خدا نہ کرے کہ لاقانونیت، عدم استحکام اور آئین، قانون و جمہوریت کے خاتمے کی صورت آجائے اور نتیجہ خانہ جنگی یا آمریت کی صورت میں ہو۔ فریقین کے درمیان ہم آہنگی اور لچک ہی حالات کی بہتری کا نسخہ ہے کہ مؤقف پر ڈٹے رہنا صرف نقصان ہی ہے وطن کا عوام اور اسٹیک ہولڈرز کا بھی۔ کچھ ان شہیدوں کا ہی خیال کر لیا جائے جو وطن کی خاطر اپنے لہو کا نذرانہ ہر روز دے رہے ہیں۔وطن ہے تو سب کچھ ہے
وطن نہیں تو تم بھی نہیں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here