بنگلہ دیش میں تاریخ دُہرا رہی ہے!!!

0
32
حیدر علی
حیدر علی

آگ کا شعلہ آج پھر بنگلہ دیش کے دارلخلافہ ڈھاکا کی شاہراہوں پر بلند ہورہا ہے، جہاں سینکڑوں بلڈنگوں ، سرکاری دفتروں اور ہزاروں گاڑیوں کو جلاکر خاکستر کردیا گیا ہے،آگ کی نذر ہونے والی میں بنگلہ دیش ٹی وی کے ہیڈکوارٹر کی بلڈنگ بھی شامل ہے، جس کی وجہ کر سرکاری ٹی وی کا تمام پروگرام معطل ہوچکا ہے، شومئی قسمت کہ بنگلہ دیش کی سرزمین اِن ہی سانحات سے عبارت ہے،خبروں کے اِسی تانے بانے سے گزرتے وقت میرے ذہن میں 1968 ء کا وہ دِن بھی محو ہوتا جارہا ہے جب اِسی طری کے ایک ہڑتال کے دِن جس کی کال مشرقی پاکستان اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے دی تھی ڈھاکہ سے شائع ہونے والے روزنامہ مارننگ نیوز کے نئے دفتر اور نئے پلانٹ کو مظاہرین نے جلاکر خاک کردیا تھا.لوگوں کا خیال تھا کہ مارننگ نیوز اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اُس وقت مارننگ نیوز کے ایڈیٹر ایس جی ایم بدرالدین تھے، دوسرے دِن پھر مارننگ نیوز لوگوں کے ہاتھ میں تھا لیکن اخبار صرف دو صفحہ پر مشتمل تھا، بعد میں معمول کے مطابق شائع ہونا شروع ہوگیا، ابراہیم جلیس کی وفات کے بعد مرحومہ بے نظیر بھٹو کے کہنے پر ایس جی ایم بدرالدین صاحب مرحوم و مغفور مساوات کراچی کے ایڈیٹر بن گئے تھے اور ضیاالحق کے دور میں نذر زنداں بھی رہے تھے،1968ء کے اُس دِن اور 18 جولائی 2024 ء کے دِن میں مجھے کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ 1968 ء کے اُس خونریز دِن کا میں خود بھی شاہد رہا ہوں، فرق صرف اتنا ہے کہ 1968 ء کے دِن طلبا نہتے تھے لیکن 18 جولائی 2024 ء کے دِن ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبا پوری تیاری کے ساتھ مسلح ہوکر آئے تھے اور اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اپنی جان دینے کو بھی تیار تھے، بقول مغربی مبصرین کہ یہ طلبا کی انتہائی مایوس ہونے کا رد عمل تھا.18جولائی کے دِن ہزاروں طلبا کے ہاتھوں میں ایک ہی رنگ اور اور ایک ہی سائز کی لاٹھی تھی، اُن ہی لاٹھیوں سے پیٹ پیٹ کر بنگالیوں نے کئی بنگلہ دیشی پولیس کو ہلاک کردیا تھا،1968 ء میں جب ڈھاکا پاکستان کے زیر حکومت تھا اُس دِن بھی احتجاجیوں نے کئی پولیس والوں کو جو اُن کے نرغے میں آگئے موت کے گھاٹ اُتار دیئے تھے، بنگلہ دیش کے قیام کے بعد یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جب پولیس کی ظلم و زیادتی ، دیدہ و دانستہ طور پر مظاہرین پر فائرنگ سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے، چند سال قبل ہی تحفظ اسلام کے مظاہرے میں پولیس نے ڈھاکا بیت المکرم کی مسجد میں مظاہرین کو گھیرے میں لے کر اُن پر بے دریغ فائرنگ کی تھی جس سے تیس مظاہرین موقع پر ہلاک ہوگئے تھے، اُس دِن تحفظ اِسلام کے کارکنوں کے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں سے زائد تھی اور اُن کی اُس تحریک میں ہزاروں کی تعداد میں مرد مجاہد شہید ہوے تھے، لہٰذا آج حقیقت یہ ہے کہ بنگالیوں کی اکثریت اپنے ملک میں اپنے آپ کو اُسی طرح محسوس کر رہی ہے جس طرح وہ پاکستان کی دور حکومت میں رہا کرتی تھی، بلکہ شیخ حسینہ نے تو وہاں جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی خیال کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے، بنگلہ دیش کی تاریخ میں پہلی مرتبہ طلبا احتجاج کو کچلنے کیلئے ڈھاکا کی شاہراہوں پر ٹینک رینگ رہے ہیں، بکتر بند گاڑیاں طلبا کا پیچھا کر رہی ہیں ، ہیلی کاپٹر سے اُن پر گولیا بر سائی جارہی ہیں، بالفاظ دیگر شیخ حسینہ کی حکومت نے انسانی اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے، باشعور بنگالی اپنے سر پہ ہاتھ رکھ کر ہچکیاں لیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یہ کیسی آزادی ہے؟ کیا اِسی لئے وہ احتجاج کیا کرتے تھے اور نعرہ لگاتے تھے ؟ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبا کا احتجاج کوئی نیا نہ تھا، اِس سے قبل بھی وہ کوٹہ سسٹم جس کے تحت بنگلہ دیش سِول سروس کی 56 فیصد ملازمت اُن سابق فوجیوں کے رشتہ داروں کیلئے مخصوص تھی جنہوں نے 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے جنگ لڑی تھی، عرف عام میں یہ نام نہاد سابق فوجی مکتی باہنی کہلاتے ہیں ، یہ درحقیقت لچے لفنگے ہیں اور جو دوران جنگ مفرور ہوکر کلکتہ چلے گئے تھے اور وہاں کیمپ میں پناہ لی تھی پاکستان کی فوج نے اِن لچے لفنگوں سے نہیں بلکہ بھارت کی فوج سے جنگ لڑی تھی اور انتہائی قابل قبل جنگ بندی کے سمجھوتے پر دستخط کرکے ہتھیار ڈالی تھی، بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمن نے بھارتی مشاورت کے بعد اِس کوٹہ کو نافذ کیا تھا. اُن کا منشا بنگلہ دیش میں ایک ایلائٹ کلاس کو تشکیل دینا تھا جو عوامی لیگ کی حکومت کی حمایت کرتی رہے. بنگلہ دیش میںپاکستانیوں کے چھوڑے ہوے سارے مکانات، دکانیں ، بزنس اور فیکٹریوں کو بھی اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں کو ہی دے کی طرح اِن ہی نام نہاد ایلائٹ کلاس کے افراد کو تقسیم کر دیئے گئے تھے تاہم بنگلہ دیش کے طلبا میں اشتعال اُس وقت بپا ہوا تھا جب اِس کوٹہ کی رعایت میں نہ صرف رشتہ داروں میں بلکہ اُن کی اولادوں کو بھی شامل کر دیا گیا تھا، سات سو ملازمت کے مواقع کیلئے سات سے آٹھ لاکھ امیدوار مقابلہ کیا کرتے تھے، اور جبکہ 56 فیصد نوکریاں کوٹہ سسٹم کے نذر ہوجاتیں تھیں۔بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے طلبا کے سارے مطالبات کو تسلیم کر لیا ہے ، لیکن کیا اب حالات معمول پر آجائینگے؟ شیخ حسینہ کو علم ہے کہ اِن سارے ہنگاموں میں سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کے صاحبزادے طارق رحمان کا ہاتھ ہے اور وہ اپنی کاوشوں کو یوں ضائع نہیں ہونے دیگااور پھر ابھی تو کرپشن کی داستان کا بم پھٹنا باقی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here