وزیر اعظم نے خیبر پختونخوا کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سے ملاقات میں روزگار کی فراہمی اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے اپنے عزم کی تجدید بھی کی ہے۔وزیر اعظم نے جن کڑوے فیصلوں کی بابت گفتگو فرمائی ہے وہ یقینی طور پر مشکل تھے، لیکن یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ ان فیسلوں کی وجہ سے ملک کے مسائل کم ہوئے ہیں یا ان سے سنگین خطرات بڑھ چکے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے معیشت کی بحالی کے لئے کڑوے فیصلوں کا اعتراف کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست کو اپنی سیاست پر ترجیح دے کر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا،وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ بجلی کے شعبے میں اصلاھات سے سالانہ اربوں روپے کی بجلی چوری رکے گی۔ اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ختم کرنے کے بعد 16 ماہ تک پاکستان میں حکومت بنانے والی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم بر سر اقتدار رہا ۔ اس اتحاد کے وزیر اعظم شہباز شریف ہی تھے۔اس دوران آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے سوا کوئی قابل ذکر اقدام نظر نہیں آتا۔اسی زمانے میں تارکین وطن نے ترسیلات زر کم کر دیں، برآمدات میں کمی ہوئی، بجلی، پٹرول اور گیس کے بل خوفناک شرح سے بڑھے۔پولیس زیادہ بے لگام ہوئی، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی حالت پتلی ہوئی ۔ رواں سال آٹھ فروری کے عام انتخابات میں کسی ایک جماعت نے 50 فیصد سے زیادہ پارلیمانی نشستیں حاصل نہیں کیں،یہ انتخابات دھاندلی کے الزامات اور ہنوز مخصوص نشستوں جیسے مسائل کی زد میں ہیں۔پی ڈی ایم جماعتوں کے اسی اتحاد نے ایک بار پھر حکومت سازی کی ہے ۔اس بار بجلی کے بلوں میں ہفتہ وار اضافہ کیا جا رہا ہے، غریب اور متوسط طبقات کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے لیکن حکومت میں شامل حکمران اشرافیہ کے وہی شاہانہ خرچے جاری ہیں۔ حکومت جو فیصلہ کرتی ہے اس کا بوجھ نچلے طبقات پر پڑ رہا ہے۔ستم یہ کہ عوامی شکایات کی کہیں شنوائی ہے نہ کوئی ریلیف کا نظام فعال ہے ۔اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی انتظامیہ، ان کی 2022-23 کی حکومت کا ری پلے ہے ۔ مسلم لیگ نوازکے ساتھ اقتدار بانٹنے والی پیپلز پارٹی نے سندھ کی حکومت ، دو صوبوں کی گورنر شپ، سندھ وبلوچستان کی وزارت اعلی اور صدارت کا منصب حاصل کیا ہے لیکن عوامی مشکلات پر اس کی خاموشی اسے مسلم لیگ نوازجیسی غیر مقبول پوزیشن کی طرف دھکیل رہی ہے۔اگرچہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں سب سے بڑے پنجاب کے وزیر اعلی کے طور پر اپنی تین مدتوں کے دوران جناب شہباز شریف نے ایک ہدف پسند، سخت منتظم کی شہرت حاصل کی لیکن 2022-23 میں بطور وزیر اعظم شہباز شریف کی کارکردگی شاندار نہیں تھی۔ان کی حکومت نے بلند ترین مہنگائی، ریکارڈ توڑ سود کی شرح، درآمدی پابندیاں، بجلی کے صارفین پر سبسڈی کے خاتمے اور پارٹی رہنماوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش کو مکمل عوامی نظر سے نہیں دیکھا۔وہ آج بھی اسی پی ڈی ایم انتظام کا تسلسل ہیں اور عوامی مشکلات کا باعث بننے والے اقسامات کو ریاست بچانے سے تشبیہ دیتے ہیں۔1947 میں اپنے قیام کے وقت، پاکستان کی ثقافتی اور مذہبی طور پر متنوع ریاست میں مرکزی قوت کا فقدان تھا ۔اس کی وجہ سے ملک جلد ہی سیاسی بحران میں ڈوب گیا۔ بدعنوانی اور آپس کی لڑائیوں نے مرکزی حکومت کو کمزور کیا۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں، صوبائی سطح کے لیڈروں نے حقیقی طاقت برقرار رکھی۔ 1958 میں فوج کے سربراہنے مارشل لا لگایا اور اگلے تیرہ برسوں میں اقتدار کو قابو میں رکھا، آمر کوسیاسی اتحاد کو برقرار رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگرچہ 1971 میں پاکستان سویلین حکمرانی کی طرف واپس آگیا، لیکن ملک نے 1977 سے 1988 اور 1999 سے 2007 تک فوجی حکمرانی کے مزید ادوار کو بھگتا ۔ سیاست دان خود کو کمزور کرتے رہے ، اتحادوں اور حکومتوں کو تشکیل دینے اور تحلیل کرنے کے منصوبے بنتے رہے۔ماہر ین کا خیال ہے کہ درجنوں کثیر الجماعتی اتحادوں اور ملک کے معاشی مسائل کی وجہ سے شہباز شریف حکومت ختم ہو سکتی ہے ۔ پاکستان کے مالی مسائل عدم استحکام کی بڑی وجہ ہیں ۔یہ مسائل حکومتی اقدامات سے کم نہیں ہو پا رہے۔ وزیر اعظم اپنی سابق حکومت اور موجودہ دور میں جتنے بھی کروے فیصلے کر تے رہے ہیں ان سے معاشی بحالی، سیاسی استحکام ، عوامی زندگی میں آسانی اور مہنگائی کم ہونے کا نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا ۔تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ عام آدمی کی مشکلات بڑھی ہیں اور اشرافیہ کی جیب میں پہلے سے زیادہ منافع جا رہا ہے۔ نتیجتا، آزادی کے بعد سے پاکستان کے انتیس وزرائے اعظم میں سے کسی نے بھی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ملک بھر میں دہشت گردی اور انتہا پسندانہ نظریات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کیا اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے سزائے موت پر عائد پابندی کو ختم کر دیا تاکہ سزا یافتہ دہشت گردوں کی پھانسی کی اجازت دی جا سکے۔ تقریبا دو سال بعد، جون 2016 میں، اعلان کیا گیا کہ فاٹا کو عسکریت پسندوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔ کلیئرنگ آپریشنوں میں سینکڑوں فوجی شہید ہوئے، جس میں تقریبا 3500 عسکریت پسند مارے گئے،یہ لڑائی ہنوز کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
٭٭٭