فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
104

محترم قارئین! اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ترجمعہ:” اور یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا، جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے، تو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا، فرمایا کیا تم نے اقرار کیا فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجائو اس سے پہلے، سب نے فرمایا: کہ ہم نے اقرار کیا(اس سے پہلے) فرمایا: اور اس پر میرا بھاری ذمہ دلیا اور فرمایا کہ میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔ تو جو کوئی اس کے بعد پھرے تو وہی لوگ خاسق ہیں۔” علماء فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جلسہ میلاد مصطفیٰ اور ذکر مصطفیٰ علیہ السلام خداوند قدوس نے مجمع انبیاء علیھم الصلوٰہ والسلام میں عرش بریں پر منعقد فرمایا، اس کے بعد تمام جسے سنت الٰہیہ ہیں علماء محققین فرماتے ہیں: ہمارے اہل سنت وجماعت نے جب بھی کوئی اصطلاح اپنائی ہے یا تو اس کی اصل قرآن کریم میں ہے یا حدیث مبا رکہ میں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عیدیں تو صرف دو ہیں(1) عیدالفطر(2) عیدالاضحیٰ تیسری عید میلاد کہاں سے نکل آئی؟ ہم کہتے ہیں کہ عید تو صرف ایک ہی ہے۔ اور وہ ہے عید میلاد مصطفیٰۖ باقی دو عیدیں تو اس کے صدقے سے ملی ہیں۔ حضور نہ ہوتے تو نہ بقر ہوتی اور نہ عید فطر علمائے محققین فرماتے ہیں کہ شب قدر اورشب براء ہ بھی شب ولادت کے صدقے ملی ہیں۔ ہم جب بھی اشتہارات چھاپتے ہیں تو اس کا عنوان جلسہ میلاد النبیۖ ہوتا ہے جبکہ دوسرے کچھ حضرت کا عنوان جلسہ سیرة النبی علیہ السلام ہوتا ہے۔ دونوں میں سے کسی کی اصل قرآن وسنت کے مطابق ہے۔ جلسہ سیرة النبی علیہ السلام کی اصل چاہیں تو آپ کو کسی کتاب سے نہیں ملے گی۔ کیونکہ کسی تفسریا حدیث میں اس عنوان کا باب یعنی باب سیرة النبی علیہ السلام نہیں ہے۔ بخلاف میلاد النبیۖ ہے۔ جبکہ میلاد النبیۖ کی اصل احادیث میں موجود ہے۔ چنانچہ حدیث کی مشہور کتاب جو صحام ستہ میں تیسرے نمبر پر پڑھائی جاتی ہے۔ وہ ہے ترمذی شریف اس میں ایک مستقل باب ہے۔ عنوان ہے ” باب ماجا، فی میلاد النبیۖ عید میلاد منانا اصل میں نعمت خداوندی کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ کیونکہ جس دن کوئی نعمت ملتی ہے۔ وہ دن عید کہلاتا ہے اس لئے ہم لوگ جس دن حضور اس عالم میں تشریف لائے اس دن عید میلاد مناتے ہیں اس کی اصل قرآن پاک میں ہے ترجمعہ(یہ دعا ہے حضرت عیٰسی علیہ السلام کی) ”اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے مائدہ یعنی دستر خوان اتار تاکہ وہ دن ہمارے اگلے اور پچھلوں کی عید کا دن ہو اور تیسری نشانی ہو” معلوم ہوا کہ جس دن کوئی نعمت ملے خداوند قدوس کی طرف سے وہ دن اس امت کے لئے عید کا دن ہوتا ہے۔ اور حضورۖ کی تشریف آوری صرف امت ہی نہیں بلکہ تمام مخلوق کے لئے عید کا دن ہوتا ہے۔ کیونکہ آپۖ کی ذات مبارکہ امت کے لئے نعمت عظمیٰ ہے آپ کی آمد پر تو جانوروں نے بھی خوشیاں منائیں۔ مشرق کے جانوروں نے مغرب والوں کو اور مغرب کے جانوروں نے مشرق کے جانوروں کو مبارک باد دی۔ اور اظہار مسرت کیا۔ باقی رہا جھنڈیاں لگانا یہ حضرت جبریل امین کی سنت ہے۔ حضورۖ کے پیدا ہونے کے دن جبریل امین نے تین جھنڈے نور کے لگائے(1)بیت آمنہ رضی اللہ عنھا پر(2) بیت اللہ شریف پر(3) تیسرا عرش عظیم پر اس میں دو باتیں سامنے آئیں۔ ایک جھنڈیاں یا جھنڈے لگانا اور اظہار مسرت کرنا پڑے گا کیونکہ حضورۖ کیوں حضور علیہ السلام تشریف لائے ہیں۔ جھنڈے لگانے سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ حضورۖ کی حکومت فرش سے عرش تک ہوگی کیونکہ جس کا جہاں جھنڈا ہوتا ہے وہاں حکومت ہوتی ہے۔ اس لئے حضور کے فرمان کے مطابق آپ کے دو وزیر زمین پر اور دو وزیر آسمان پر ہیں۔ صحابہ علیھم الرضوان نے عرض کی حضور کے نام کیا ہیں۔ فرمایا زمین پر صدیق وفاروق رضی اللہ عنھا اور آسمان پر جبریل ومیکائیل علیھا السلام، آسمانوں پر بھی وزارت حضور کی اور زمین پر بھی وزارت حضور کی۔ اس بنا پر حضور صدر کونین ہیں۔ دونوں صوبے زیرنگین مصطفیٰ ہیں۔ حضور علیہ السلام مدینہ منورہ شریف میں بسطریق جلوس داخل ہوئے۔ جب حضور علیہ السلام مکہ سے مدینہ چلے تو راستہ میں بریدہ اسلمی اور اس کے ستر سواروں سے ملاقات ہوئی۔ بریدہ اسلمی نے حضور سے چند سوالات کئے۔ اور مسلمان ہو کر بمع اپنے ساتھیوں کے حضور کے ساتھ ہو لیا اور جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو بریدہ اسلمی نے اپنی چادر پھاڑ کر جھنڈا بنا کر چھڑی پر لہراتے ہوئے حضور کے آگے آگے غلامانہ طور پر مدینہ میں داخل ہوئے یہ سب حضور نبی کریمۖ کا میلاد منانے کے واضح دلائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین ثمہ آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here