ڈھاکا کالج نہ صرف ڈھاکا بلکہ بنگلہ دیش کے ایک ایسے اعلی درجہ کے کالج میں شمار ہوتا تھا جہاں کے فارغ التحصیل طلبا ہر مقام پر کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتے تھے، اِس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اِس کالج میں داخلہ کے شرائط انتہائی سخت تھے، صرف فرسٹ ڈویزن سے میٹرک پاس طلبا کو داخلہ ملتا تھالیکن یہ تو تھیں ڈھاکا کالج کے ماضی کی داستانیں ، تازہ ترین حالات میں یا یہ کہیے وزیراعظم شیخ حسینہ کے دور حکومت میںاِس کالج کی ساکھ ایسی بگڑی کہ ہر خاص و عام بنگالی کے پیشانی پر اِس کالج کا نام سنتے ہی سلوٹیں پڑجاتیں ہیںاور وہ یہ کہے بغیر نہ رہتا ہے کہ نہ بابا نہ، وجہ اِس کی یہ ہے کہ اِس کالج کے طلبااِس کے پڑوس میں واقع نیو مارکیٹ جو ڈھاکا شہر کا ایک انتہائی جدید ترین شاپنگ مال ہے وہاں لوٹ مار کرتے ہوے پائے گئے ہیں، اور اُن کی یہ عادت بن گئی ہے کہ جب بھی اُنہیں کسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے ، مثلا”اُن کی گرل فرینڈ یا ماں یا بہن کبھی ساڑھی یا اِسکرٹ یا فیشن ایبل سینڈل کی خواہش کا اظہار کرتیں ہیں تو اُنکا چشم و چراغ اپنے دوستوں کے ہمراہ نعرہ لگاتے ہوے نیو مارکیٹ میں داخل ہوجاتا ہے اور لوٹ مار کرکے فرمائش کی ہوئی چیزوں کو بغیر قیمت ادا کئے ہوئے لے آتا ہے، گرل فرینڈ ، ماں یا بہن اپنے سپوت پر فخر کرتیں ہیںکہ مستقبل میں کوئی وہ اعلیٰ افسر بنے یا نہ بنے فی الحال تو وہ ایک کامیاب لٹیرا ہے، نیو مارکیٹ کے گرد و نواح میں پولیس کا کاٹ کے الو بن کر کھڑا رہنا ایک معمول ہے ، کیونکہ اُنہیں اوپر سے ایسا ہی حکم ملا ہے۔تاہم 19 اپریل کو ڈھاکا کالج کے طلبا کی کارستانی کی وجہ سے اِس شہر کے باسیوں میں صف ماتم بچھ گئی ہے، اِس سے ایک دِن قبل افطار کے وقت اِس کالج کے چند طلبا نیو مارکیٹ میں واقع فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں کچھ کھانے پینے گئے تھے، ریسٹورنٹ کے ویٹرز سے اُن طلبا کی بیٹھنے کے سلسلے میں کچھ تلخ کلامی ہوگئی تھی جو ہاتھا بائی تک پہنچ گئی تھی لیکن بعد ازاں نیو مارکیٹ ٹریڈرز ایسو سی ایشن کے عہدیداروں کی مداخلت سے فریقین کے مابین صلح و صفائی ہوگئی تھی تاہم یہ بات عوامی لیگ کی طلبا تنظیم بنگلہ دیش چھاترا لیگ کے ارباب حل و عقد تک پہنچ گئی تھی اور اُنہی کے حکم سے دوسرے دِن ڈھاکا کالج کے 200 طلبالاٹھی ، نیزہ، تلوار، اینٹ اور بموں سے مسلح ہوکر دِن کے اگیارہ بجے نیو مارکیٹ پر حملہ آور ہو گئے.حملہ آوروں کی خاص بات یہ تھی کہ اُن میں بیشتر اپنے سروں کو محفوظ رکھنے کیلئے ہیلمیٹ پہنے ہوئے تھے جو اِس بات کی نشاندہی تھی کہ اِس پیش قدمی کو عوامی لیگ کی ہائی کمان کی آشیر باد حاصل تھی۔چند سالوں سے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت کو جب بھی کسی مظاہرے کو منتشر کرنا ہوتا ہے تو وہ پولیس یا رینجرز کو استعمال کئے بغیر اِن ہی ہیلمیٹ بردار غنڈوں کو استعمال کرتی ہے ، کا م کا کام ہوجاتا ہے اور حکومت کو مذمت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا ہے، گزشتہ سال اسکول کے معصوم بچے جو محفوظ ٹریفک کیلئے مظاہرہ کر رہے تھے اُن پر اِنہی ہیلمیٹ بردار غنڈوں نے حملہ کرکے اِس بُری طرح زد و کوب کیا تھا کہ اسرائیل کی فوج بھی شرما جاتی، متعدد مرتبہ مظاہروں کو منتشر کرنے کیلئے یہ غنڈے منظر عام پر نظر آئے ہیں، اِن ہی ظالمانہ کرتوتوں کی وجہ کر اُنہیں ہیلمیٹ باہنی کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے۔ بہرکیف طلبا کے حملے کی وجہ کر نیو مارکیٹ سے متصل میرپور روڈ میدان کار زار بن گیا تھا،نا صرف شرپسندوں نے عید کی خریداری پر پانی پھر دیا تھا بلکہ پانچ دکانوں کو جلاکر خاکستر کردیا تھا، نیو مارکیٹ کے دکانوں کے مالکان اور اُنکے عملے بھی مزاحمت کی کاروائی میں شامل ہوگئے تھے، 3 گھنٹے تک پولیس کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا، اعلیٰ پولیس افسران کا کہنا تھا کہ اُن کی مداخلت مزید خون خرابہ کا باعث بن سکتا تھا، طلبا 20 منزلہ ڈھاکا کالج کی چھت پر چڑھ کر اُن پر سنگباری کرسکتے تھے، لہٰذا پولیس کو انتظار کرنا پڑ رہا تھا لیکن انتظار کی گھڑی سادہ لوح راہگیروں کیلئے انتہائی مہنگی ثابت ہوئی، اُن راہگیروں میں 19
سالہ ڈلیوری مین ناہید میاں بھی شامل تھا، جس کی چند ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی، وہ نیو مارکیٹ کمپیوٹر کے کسی پُرزے کی ڈلیوری کیلئے گیا تھا، واپسی کے وقت اُس کی مڈھ بھیڑ ڈھاکا کالج کے شر پسند طلبا کے گروہوں سے ہوگئی، پہلے تو اُنہوں نے اُسے بُری طرح تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں دو ہیلمیٹ بردار طالب علم جن میں ایمون اور قیوم شامل تھے اُس پرتلوار سے مسلسل حملہ کرنا شروع کردیا، دونوں کی نشاندہی ڈھاکا کالج کے طلبا سے ہوچکی ہے، تقریبا”دو گھنٹے تک دِن کے اجالے اور مسلح جتھوں کی موجودگی میں وہ اُس وقت تک مدہوش پڑا رہاجب تک کہ نیو مارکیٹ کے دکانوں کے ملازمین اُسے اٹھاکر ڈھاکا میڈیکل کالج نہیںلے گئے، جہاں اُسی رات وہ اﷲ کو پیارا ہوگیا، جبکہ کپڑے کی د کان کا ایک دوسرا 27 سالہ ملازم محمد مرسلین بھی سر پہ پتھر کے بھاری زخم آنے کی وجہ کر ہلاک ہوگیا،بنگلہ دیش کے اخبارات میں قاتلوں کی تصویریں ، جائے پناہ اور دوسرے کوائف شائع کئے جارہے ہیں، تازہ ترین اطلاع کے مطابق اِس سلسلے میں پانچ طلبا کی گرفتاری عمل میں آئی ہے، پولیس کے اعلی افسران انتہائی سرد مہری سے اِس کیس کی تحقیقات کر رہے ہیں، اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اِن دنوں بنگلہ دیش کے تمام کلیدی عہدے پر ہندو بنگالی فائز ہیں، ڈھاکا کالج کی تحقیقاتی کمیٹی کا صدر مسٹر بسواس بھی ایک ہندو ہے، جبکہ کالج کے چھاترا لیگ کا جنرل سیکرٹری لیکھک بھٹاچارجی دوسرا ہندو ہے۔