ٹیکنالوجی کے سونامی نے بچوں کو وقت سے پہلے بڑا کر دیا ہے، بہت سے موضوعات ایسے ہیں جن پر والدین بچوں سے بات نہیں کرتے جبکہ بچے اپنے سمارٹ فون پر ایک کلک کے ذریعے سب کچھ جان رہے ہیں ۔ جب بچوں کو زندگی کے حساس موضوعات پر بغیر کسی فلٹر کے ہر قسم کی معلومات مل رہی ہوں، تو وہ کم عمری میں اپنے اندر بہت سا فاصلہ طے کر لیتے ہیں اور اپنی عمر سے بڑے ہوجاتے ہیں جبکہ اس سارے پراسیس میں ان کے والدین کی رہنمائی موجود نہیں ہوتی ۔وہ انہیں اپنے تئیں معصوم اور کم عمر ہی سمجھتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے سونامی کے سامنے حفاظتی بند باندھنے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ ہم تربیت کے نظام کو مضبوط بناتے ۔ ہم نے اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں اپنے سماجی ڈھانچے کو بچانے کیلئے ان کی تربیت کا کوئی نظام وضع نہیں کیا۔ یہ فرق ان کے اور ان کے والدین کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج پیدا کر دیتا ہے۔ جسے ہم کمیونیکشن گیپ کہتے ہیں۔بظاہر گھر کی ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے والدین اور بچے ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوتے ہیں۔کمیونکیشن گیپ کو کم کرنے کی عملی کوشش نہ کی جائے تو یہ ایک بہت بڑے خلا کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ایسے خلا میں رشتوں کو پنپنے کے لیے جس ہوا پانی اور روشنی کی ضرورت ہوتی ہے وہ نہیں ملتی۔ کم عمری میں بہت کچھ جان لینے کے بعد بچوں کے شعور میں جو دھند پیدا ہوتی ہے وہ اس دھند کے پار چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش میں سوشل میڈیا پر موجود اجنبیوں کی سے دوستیاں بناتے ہیں،پھر انہیں والدین اجنبی اور اجنبی اپنے ہمدرد دکھائی دیتے ہیں۔دعا زہرا کے کیس میں جب اس کے والد پریس کانفرنس میں یہ کہہ رہے تھے کہ دعا نے جو بیان دیا ہے ،وہ اس کے اپنے الفاظ نہیں کیونکہ بچی کم عمر ہے اور دوسروں کی سوچ سے “انفلوئنس” ہوسکتی ہے۔ اسوقت مجھے خیال آیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچی کی سوچ کو اگر (influence) کیا جا سکتا تھا تو بطور والدین آپ اپنی بچی کی سوچ کو انفلوئنس کیوں نہیں کیا؟ مطلب ہے کہ بطور والدین بچی کی سوچ بنانے اور شعور پروان چڑھانے میں آپ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ جب کوئی اجنبی آپ کے بچوں کی سوچ پر اثر انداز ہو سکتا ہے تو آپ خود بھی تو ہو سکتے ہیں،اپنا فرض ادا کریں، اپنے بچوں کو بہتر اور مثبت سوچ کے ساتھ جوڑنے کے لیے وقت نکالیں۔یقینا کوئی خلا ہے جو والدین چھوڑ دیتے ہیں، جسے کوئی اجنبی آ کر پر کرتا ہے۔بچی جب گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کرتی ہے اور پھر باپ کو اپنا نکاح نامہ واٹس اپ کرتی ہے اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ مغرب سے درآمد ہوئیں ویڈیو گیمز لڑکے لڑکیاں بہت شوق سے کھیلتے ہیں،یہ بظاہر ویڈیو گیمز ہیں لیکن درحقیقت یہ سوشل میڈیا کے ایسے پلیٹ فارم ہے جہاں کم عمر لڑکے لڑکیاں آپس میں سوشلائز کرسکتے ہیں ۔ان گیمز میں میسجنگ ، کالنگ اور ویڈیو کالنگ کی سہولت بھی موجود ہے۔ دعا کے کیس میں بھی پتہ چلا کہ وہ پب جی گیم کے ذریعے ظہیر سے رابطے میں تھی ۔دونوں کے درمیان ٹیکسٹ میسج بھی ہوتے رہے اور فون پر بات بھی ہوتی رہی جو اس حد تک آگے بڑھی کہ وہ اپنے گھر سے نکل کر لاہور پہنچی اور کورٹ میرج کرلی۔ یہ معاملہ ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر زیر بحث ہے۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم پریشان حال والدین پر تبصرہ کر رہے ہیں لیکن خدارا والدین کو آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے کہ جب ایک بچی گھنٹوں کے حساب سے ویڈیو گیمز میں مصروف رہتی ہے جو کہ دعا کی والدہ نے کہا کہ وہ چھ چھ گھنٹے تک ویڈیو گیمز کھیلتی تھی ،سکول بھی نہیں جاتی تھی۔ایسے میں والدین سراسر قصور وار ہیں۔ٹین ایج بہت حساس عمر ہوتی ہے والدین کو چاہئے کہ بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیں۔ ان کے ساتھ مکالمہ بڑھائیں ، ان کو صبر اور حوصلے سے سنیں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔نفسیاتی طور پر یہ پہلو بھی سمجھنے کی کوشش کریں کہ ٹین ایج میں لڑکے لڑکیوں کے ذہن خود ساختہ مسائل سے الجھے ہوتے ہیں ۔ ان میں باغیانہ احساسات جنم لیتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کو اپنا دشمن نہیں تو کم ازکم دوست بھی تصور نہیں کرتے۔ ایسے میں انہیں زیادہ محبت اور احساس تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسی خود ساختہ نفسیاتی الجھنوں سے رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھائی کے علاوہ مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے۔ انہیں گھر کے معاملات میں اپنے ساتھ شامل کریں۔ جبکہ آجکل والدین سمجھتے ہیں کہ بچوں کو ہر طرح کے ذمہ داریوں سے آزاد کر دیں اور ان کی زندگیوں کو پر آسائش بنا لیں تو بطور والدین انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا،یہ سوچ بچوں کے لیے زہر قاتل ہے۔سکرین ٹائم ہر صورت کم کرنے کی کوشش کریں۔آن لائن مصروفیت پر نظر رکھیں،زیادہ سے زیادہ حقیقی زندگی میں آف لائن بچوں کو اپنے ساتھ مصروف کریں۔ ان پر ذمہ داری ڈالیں۔ کچھ نہیں تو ٹیوشن پڑھانے پر لگادیں، مائیں بیٹیوں کو اپنے گھروں کے کاموں میں اپنے ساتھ لگائیں، لڑکوں کو بھی آپ گھر سے متعلقہ ہنر سکھا سکتے رہیں ،آج کل بچے اچھے شیف بننے کے بھی شوقین ہیں بیکنگ میں بھی دلچسپی لیتے ہیں،کوئی بھی ہنر چھوٹا بڑا نہیں یا جینڈر کے ساتھ مخصوص نہیں اس لیے اپنے بچوں کو آف لائن زندگی کے ہنر سکھائیں۔ یاد رکھیں کہ بچے اگر اپنی فراغت کا 80 فیصد وقت ویڈیو گیمز کھیلنے میں گزار رہے ہیں، تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔یہ ایک ایسا نشہ ہے جو بچوں کے سوچنے اور سمجھنے کے نظام کو سلب کر کے رکھ دیتا ہے۔ پھر ایسے واقعات زندگی میں ہوتے ہیں جس میں سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اسمارٹ فون اور سکرین ہماری زندگی کی حقیقتیں ہیں ان سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بچوں کو ایک کامرس اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ہنر سکھائے جائیں تاکہ سکرین پر ان کے وقت کو ایک سمت دی جاسکے اور وہ ادھر ادھر ویڈیو گیم میں وقت ضائع کرنے اور غلط لوگوں کے ہتھے چڑھنے سے بچ سکیں ۔
٭٭٭