امریکی پالیسی ساز چین کے ممکنہ عروج کے خطرے کو نہیں بھولے۔ چین کے عروج کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ نے چین کو گھیرے میں لینے کی پالیسی اپنائی ہے جس کا بنیادی ستون نہ صرف تائیوان کے ساتھ امریکہ کے خصوصی تعلقات کا تسلسل ہے بلکہ اس میں مزید گرمجوشی کا مظہر بھی ہے۔ جیسا کہ 2022 میں امریکی کانگریس کے رہنماوں ، جن میں امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کا چین کی دھمکیوں کے باوجود 3 اگست کو تائیوان کا دورہ شامل ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ایک طویل انتظار کے بعد 15 نومبر کو ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (APEC ) کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات ہوئی ہے۔ چار گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات کو میڈیا کی جانب سے تاریخی سربراہی اجلاس قرار دیا جا رہا ہے۔ دونوں صدور کے مابین ہونے والی یہ وہ ملاقات ہے جس کا کافی عرصے سے انتظار کیا جارہا تھا کیونکہ نومبر 2022 کے بعد سے دونوں صدور کی ملاقات نہیں ہوئی۔ چین اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات پچھلے پچاس برسوں کی نچلی ترین سطح پر ہیں خصوصا جب گزشتہ سال امریکہ نے چین کے غبارے کو جاسوسی غبارہ قرار دیتے ہوئے گرایا تھا۔ اس واقعہ نے دوطرفہ تعلقات کو پٹڑی سے اتار دیا جو تائیوان کے مسئلے، بحیرہ جنوبی چین اور امریکہ کی جدید ٹیکنالوجی پر پابندیوں یعنی چین کو کچھ جدید ترین سیمی کنڈکٹر چپ کی برآمد کی وجہ سے پہلے ہی تناو کا شکار تھے۔یہاں تک کہ اس کا اعتراف صدر شی نے سربراہی اجلاس کے بعد یہ کہہ کر کیا ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات کبھی بھی “ہموار سفر” نہیں رہے ہیں۔ تاہم، صدر شی نے کہا کہ “دو سپر پاورز کے درمیان مذاکرات کا دروازہ دوبارہ بند نہیں کیا جا سکتا”۔ سربراہی اجلاس کے بعد بائیڈن نے تبصرہ کیا کہ چین اور امریکہ کے درمیان مسابقتی تعلقات کے پس منظر میں، وہ ان تعلقات کو معقول اور قابل انتظام بنانا چاہتے ہیں تاکہ یہ تنازعہ کی صورت میں نہ نکل سکیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان رابطے اس وقت کے امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کے گزشتہ سال تائیوان کے دورے کے بعد منقطع ہو گئے تھے۔ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران بیجنگ کے دورے پر مختلف عہدیداروں کو بھیجتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں اس کے باوجود چین کے ہر اقدام، منصوبہ بندی اور اشتعال انگیزی کا مقابلہ کرنے کی جبلت امریکی پالیسی سازوں کے ذہنوں پر حاوی ہے۔ دونوں طرف سے زیادہ جنگی نقطہ نظر نے ایک دوسرے کے بارے میں منفی تاثر پیدا کیا ہے۔ بیجنگ کے خیال میں صرف ایک طویل جدوجہد کے ذریعے ہی امریکیوں کو مضبوط چین کے ساتھ رہنے پر آمادہ کیا جائے گا جبکہ واشنگٹن کا خیال ہے کہ امریکہ کو اپنی موجودہ بالادستی کو برقرار رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے چینی طاقت اور اثر و رسوخ کو روکنا ضروری ہے۔ نتیجے کے طور پر اعتماد کی کمی کے ساتھ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات تنزلی کی طرف گئے ہیں۔ ہر ملک کی اپنی سکیورٹی بڑھانے کی کوششیں دوسرے کو بھی اپنی سکیورٹی بڑھانے کے لیے مزید اقدامات کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اس تناظر میں اس سربراہی اجلاس کا صرف منعقد ہونا بذات خود ایک کامیابی بن گیا ہے جس کے، دونوں فریقوں کے مطابق، کم از کم، کچھ مثبت نتائج ضرور برآمد ہوئے ہیں۔ تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین جیسے کانٹے دار مسائل کی موجودگی کے باوجود، صدر بائیڈن اور صدر شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی سربراہی ملاقات دونوں فریقین کے لیے ایک جیت ثابت ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے ملٹری سطح پر مواصلات کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے جو امریکیوں کی خواہش کی فہرست میں ترجیح تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ صدی میں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین چالیس سال تک جاری رہنے والی سرد جنگ کے دوران کسی بھی حادثے یا غلط حساب سے بچنے کے لیے امریکہ اور سوویت یونین نے ملٹری سطح پر باہمی رابطے کھلے رکھے تھے۔ عالمی سیاست کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر امریکہ اور چین کے درمیان بھی یہ روابط برقرار رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے حریف کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور جس کا نتیجہ جنگ کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس صورتحال کو ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر گراہم ایلیسن نے ” Thucydides Trap ” قرار دیا ہے۔ مزید برآں، امریکہ اور چین نے امریکہ میں فینٹینیل(Fentanyl) کی ترسیل کو روکنے کی مسابقت میں مل کر کام کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ کاربن کے دو سب سے بڑے اخراج کرنے والے ممالک ہونے کے ناطے، چین اور امریکہ دونوں نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے اور میتھین جیسی ایک طاقتور گرین ہاوس گیس کے اخراج کو کم کرنے کے لیے تعاون کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے 2030 تک قابل تجدید توانائی کو تین گنا کرنے کی عالمی کوششوں میں مدد کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ ماہرین نے اس اقدام کو موسمیاتی تبدیلی پر ایک چھوٹا لیکن اہم قدم قرار دیا ہے جو اس ماہ کے آخر میں دبئی میں منعقد ہونے والے COP28 سے قبل قابل ذکر اقدام ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پچھلی پانچ دہائیوں کے دوران، امریکہ نے چین کو ایک ایسے بین الاقوامی نظام کا حصہ بنانے کے لیے مشغولیت اور ڈیٹرنس (Engagement and Deterrence)کے امتزاج کی کوشش کی ہے جو وسیع پیمانے پر امریکی مفادات اور اقدار سے ہم آہنگ ہو۔ تاہم اس سربراہی اجلاس میں دونوں صدور کے مابین تائیوان کے بارے میں بھی کافی بات چیت ہوئی ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کے مطابق، صدر شی جن پنگ نے اپنے امریکی ہم منصب سے کہا ہے کہ امریکہ “تائیوان کو اسلحہ فراہم کرنا بند کر دے” اور جزیرہ تائیوان کے ساتھ چین کا دوبارہ اتحاد ” رکنے والا نہیں” ہے جب کہ امریکہ نے کہا ہے کہ تائیوان پر اس کی پوزیشن تبدیل نہیں ہوگی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تائیوان کا مسئلہ اب بھی امریکہ اور چین کی بات چیت پر حاوی ہے اور یہ دونوں سپر طاقتوں کے مابین مثبت اور پائیدار باہمی تعلقات کے قیام میں ایک کلیدی رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان اب بھی کانٹے دار مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے اگرچہ گزشتہ چار مہینوں کے دوران واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان ہونے والے روابط دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کے متعلق ایک امید کا پیغام دیتے ہیں اور دونوں ملکوں کی قیادت میں پائی جانے والی مثبت سوچ کی عکاسی کرتے ہیں لیکن یہ تصور کرنا قبل از وقت ہے کہ امریکہ اور چین کے باہمی تعلقات میں یہ مثبت پیش رفت کب تک برقرار رہے گی۔ البتہ جو بات یقین سے کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے بنیادی اصول تبدیل نہیں ہوں گے۔
٭٭٭