اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلی پون صدی کے دوران، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری (Investment ) پراجیکٹ اسرائیل میں ہوئی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ کے مارشل پلان کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے شروع کئے ہوئے اسرائیلی پراجیکٹ کو امریکہ بہادر نے گود لیا اور مشرقِ وسطی کے گراں بہا وسائل پر تسلط کیلئے، اپنی اس گرانقدر سرمایہ کاری کا خوب فائدہ اٹھایا۔ بلکہ آجکل بھی اپنی اس انوسٹمنٹ کے منافع سے طاقتور سپر پاور بنا ہوا ہے۔ پراجیکٹ اسرائیل کا سب سے زیادہ نقصان فلسطین کے ان مظلوم عوام پہنچا، جن کی نسلوں کی نسلیں ایک عرصہ دراز سے بے گھر اور بے یار و مددگار ہیں۔ خواتین اور بچوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی انسانی تاریخ میں مثال ملنا بہت مشکل ہے اور ایک طویل مدت گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک ان کے دکھوں کا کوئی مداوا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
پراجیکٹ اسرائیل کیلئے سرمایہ کاری، صرف حکومتِ وقت ہی فراہم نہیں کرتی بلکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے سارے ستون اس نیک کام میں پوری طرح شامل ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک بڑا ستون یہاں کی یورنیورسٹیاں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکی یونیورسٹیوں کے اوقاف (Endowments ) کی مجموعی مالیت آٹھ سو ارب ڈالرز سے بھی زیادہ ہے۔ اوقاف کے ان فنڈز سے سرمایہ کاری کے ذریعے جو منافع کمایا جاتا ہے، اسی سے یونیورسٹیوں کے انتظامی اخراجات کا ایک بڑا حصہ پورا کیا جاتا ہے۔ صیہونی قوتوں نے جہاں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے باقی ستونوں پر قبضہ کیا ہوا ہے، وہیں یونیورسٹیوں کے اوقاف کے ایک بڑے حصے کو پراجیکٹ اسرائیل میں انویسٹ کروایا ہوا ہے۔ ویسے تو اس سرمایہ کاری کی مالیت بھی کئی ارب ڈالرز بنتی ہے لیکن اس سے بڑھ کر ایڈوانس ٹیکنالوجی پر بھی صیہونی دسترس ضرورت سے زیادہ رہتی ہے۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کی اس ناجائز سرمایہ کاری کے خلاف ایک عرصے سے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں لیکن سات اکتوبر سے غزہ میں شروع ہونے والی نسل کشی اور ظلم و بربریت کے بعد امریکی عوام اور طلبہ برادری کا ایک بہت بڑا حصہ سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں کی سرمایہ کاری سے فلسطینی بچوں اور خواتین کے خوفناک قتلِ عام کی ذمہ داری نئی نسلیں اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔ اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے جرائم اور مظالم میں کوئی امن پسند شہری بھی شریک نہیں ہونا چاہتا۔ انسانیت کے رشتے کی لاج رکھتے ہوئے، آج امریکی طلبا کی بڑی تعداد اپنے تعلیمی کیرئیر کو دا پہ لگائے ہوئے ہے۔ میڈیا، بزنس، اور حکومت میں بیٹھے ہوئے صیہونی اور صیہونیت پسند عناصر نے طلبا کی یہ تحریک کچلنے کیلئے پورا زور لگایا ہوا ہے۔ لیکن طلبہ بھی محترم نعیم صدیقی صاحب کے اس قول کے قائل ہیں کہ!
بجھا سکو تو دیا بجھا دو
دبا سکو تو صدا دبا دو
دیا بجھے گا تو سحر ہو گی
صدا دبے گی تو حشر ہو گا
امریکی طلبہ، اس سے پہلے بھی، اسی قسم کی تحریکیں چلا کر جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کیلیئے کی گئی سرمایہ کاری پر پابندی لگوا چکے ہیں۔ اسی طرح تمباکو میں ملوث کمپنیاں اور پرائیویٹ جیل بنانے اور چلانے والی تنظیمیں اور ماحولیاتی تباہی پھیلانے والے ادارے بھی طلبہ کی ان تحریکوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے صیہونی عناصر، اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہونے کے بعد اب مالی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنے والے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مرتبہ طلبہ کے سامنے ایک بہت بڑا اور مشکل ٹارگٹ ہے لیکن غزہ کے مظلوموں کے آہوں سے اس وقت عرشِ الہی لرز رہا ہے اور ان طلبہ کی کاوشوں میں ضرور ایسا زور پیدا ہوگا کہ ناممکن، ممکن ہو جائے گا۔ ان شااللہ۔
نیو یارک میں کولمبیا یونیورسٹی ہمیشہ کی طرح اس طلبہ تحریک کی بھی روحِ رواں ہے۔ امریکی سوسائٹی کی بہت سی تنظیمیں، طلبا کی اس تحریک کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں کیونکہ یہی طلبہ ہی اس ریاست کا مستقبل ہیں۔ کچھ دن پہلے، اکنا، نیویارک کے صدر محترم طارق الرحمان صاحب جب مجھے یونیورسٹی کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے نظر آئے تو بے اختیار پاکستانی آمریت کے خلاف چلائی جانے والی، طلبہ کی وہ تحریکیں یاد آگئیں جب لاہور میں طارق شیلے اپنی شعلہ بیانیوں سے مظاہرین کے دل گرمایا کرتے تھے۔ اب وہی طارق شیلے تقریبا اسی گھن گرج سے انگریزی زبان میں کولمبیا یونیورسٹی میں تقریر کررہے تھے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ یقینا خوش قسمت ہیں کہ وہ ایک انتہائی بڑے مقصد کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس جدوجہد میں ضرور اونچ نیچ آئے گی لیکن آخری فتح ہمیشہ حق کی ہی ہوگی۔ گوہر رضا صاحب نے کیا خوب تجزیہ فرمایا ہے۔
یورپ جس وحشت سے اب بھی سہما سہما رہتا ہے
خطرہ ہے وہ وحشت میرے ملک میں آگ لگائے گی
نفرت میں جو پلے بڑھے ہیں نفرت میں جو کھیلے ہیں
نفرت دیکھو آگے آگے ان سے کیا کروائے گی
یہ مت بھولو اگلی نسلیں روشن شعلہ ہوتی ہیں
آگ کریدو گے چنگاری دامن تک تو آئے گی
۔۔۔
٭٭٭