صدر ٹرمپ ”ایران”کو قائل کرنے میں کامیاب ہوں گے ؟

0
12

واشنگٹن (پاکستان نیوز) کیاصدر ڈونلڈ ٹرمپ بہت جلدی میں ہیں؟، عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد چند ماہ کے دوران ہی انہوںں نے غزہ اور یوکرین میں قیامِ امن کی کوششیں کی اور ناکام رہے۔ وہ یمن پر بمباری کر چکے ہیں، ایک عالمی تجارتی جنگ چھیڑ بیٹھے ہیں اوراب ان کی توجہ کا مرکز ایران ہے۔یہ ہمیشہ صدر کی ترجیحات کی فہرست میں رہا ہے۔ ٹرمپ کے لیے، ایران ان کی پہلی مدتِ صدارت سے ہی ایک نامکمل کام ہے۔ایران اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی خواہش رکھتا ہے لیکن دیگر ممالک کا خیال ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کم از کم جوہری وار ہیڈ بنانے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے جو ایک ایسی خواہش ہے جس سے مشرق وسطیٰ میں اسلحے کی دوڑ یا یہاں تک کہ مکمل جنگ شروع ہو سکتی ہے۔2015 میں ایران نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین کے ساتھ ایک معاہدے پر اتفاق کیا۔ اسے ‘جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن’ کہا گیا۔اس کی شقوں کے تحت، ایران کو اپنے جوہری عزائم محدود کرنے ہیں اور بین الاقوامی معائنہ کاروں کو ملک میں داخلے اور معائنے کی اجازت دینی تھی جس کے عوض اس پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھائی جانی تھیں لیکن ٹرمپ نے 2018 میں امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر لیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اس سے ایران کی ملیشیاز جیسے حماس اور حزب اللہ کو مالی مدد ملی اور دہشت گردی بڑھی۔ معاہدے سے نکلنے کے بعد امریکہ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔اس کے ردعمل میں ایران نے بھی معاہدے کی کچھ پابندیوں کو نظرانداز کیا اور زیادہ سے زیادہ یورینیئم جوہری ایندھن افزودہ کیا۔تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ ایران کے پاس جلد ہی جوہری وار ہیڈ بنانے کے لیے درکار یورینیم موجود ہو سکتا ہے۔انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا اندازہ ہے کہ اگر ایران کے 60 فیصد افزودہ یورینیئم کے ذخیرے کو اگلی سطح تک افزودہ کیا گیا تو وہ تقریباً چھ بم بنا سکتا ہے۔صدارت سنبھالتے ہی ٹرمپ نے ایران پر ‘زیادہ سے زیادہ دباؤ’ کی اپنی سابقہ پالیسی کو بحال کر دیا۔چار فروری کو انھوں نے ایک یادداشت پر دستخط کیے جس میں امریکی وزارت خزانہ کو ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے اور موجودہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک، خاص طور پر ایرانی تیل خریدنے والے ممالک کو سزا دینے کا حکم دیا گیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here