کیا نواز شریف شملہ بھاگنا چاہتے تھے؟

0
79
حیدر علی
حیدر علی

قیاس آرائیاں ، الزامات کی بوچھاڑ کرنا اور استعفیٰ دینے کی دھمکیاں دینا یا دے دینا سیاست کی جان ہیں لیکن یہ امر ثابت شدہ ہے کہ جنہوں نے بھی استعفیٰ دیا وہ پچھتائیں گے، اِن ساری چہ مگوئیاں اور اخباری سرخیوں سے زیارہ اہم خبر یہ ہے کہ آخر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو کیا ضرورت پڑگئی تھی وہ پی ٹی آئی کے احتجاج اور لانگ مارچ کے دوران اسلام آباد سے مری ہیلی کاپٹر سے بھاگیں؟ اُن کا یہ ہوائی سفر بنگلہ دیش کی سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ کے مفرور ہونے سے بہت زیادہ مماثلت رکھتا ہے، سابق وزیراعظم نواز شریف کے بھاگنے کی اپنی ایک روایت ہے، جب وہ جیل میں قیدی نمبر 4470 تھے اور اُنہیں دس سال قید بامشقت اور 25 ملین ڈالر کی ادا کرنے سزا ہوئی تھی تو اُنہوں نے اُس وقت بھی لندن جاکر علاج کروانے کیلئے راہ فرار حاصل کی تھی،شاید خاکی وردی پہننے والا چیف اِس سے آگاہ نہیں،ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے بعد ازاں نواز شریف کی میزبانی کرنے کی مکمل کہانی سنائی، اُس نے کہا کہ اُسے حکم ملا تھا کہ وہ نوازشریف کو اسلام آباد سے مری تک لے کر جائے ، لیکن اگر وہ اصرار کریں تو وہ اُنہیں بھارت کے شہر شملہ پہنچادے، وہ کاک پٹ میں بیٹھا اُن کا انتظار کر رہا تھا چند لمحہ بعد اُسے ایئر پورٹ کی دوسری جانب سے ایک سایہ نظر آیا جو اپنے چہرے کو کمبل سے چھپایا ہوا تھا ، وہ سایہ تیز رفتاری سے اُس کی جانب بڑھ رہا تھا، اُس کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے کاک پِٹ سے اُتر کر اُس سائے کا رو برو سامنا کرے، اُس نے کہا کہ اُس کے دائیں ہاتھ کی اُنگلی پستول کے ٹریگر پر پہنچ چکی تھی،لیکن اُسی دوران اُس شخص نے اپنے چہرے سے کمبل اٹھا لیا اور با آواز اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ”میں نواز شریف ہوں اور شملہ جانا چاہتا ہوں” پائلٹ نے کہا کہ اُس نے پوچھا کہ آخر وہ خفیہ راستے سے کیوں آئے ہیں؟ نواز شریف نے جواب دیا کہ اُن کے ڈرائیور نے اُنہیں وہیں اُتار دیا تھا اور کہا تھاکہ وہ پیدل چل کر ہیلی کاپٹر تک چلے جائیں ، لوگوں کو پتا چل گیا تو وہ اُن کی دھلائی کردینگے،پائلٹ نے بعد ازاں نواز شریف کو کہا کہ اُس کے ہیلی کاپٹر میں اتنا فیول نہیں کہ وہ تین سو میل کی مسافت کرکے شملہ جاسکے، اِس لئے وہ اُنہیں مری میں اُتار دیگا، یہ سن کر نواز شریف نے غصے اور افسوس کے امتزاج سے اپنے چہرے کو نیچے کر لیا،سابق وزیراعظم نواز شریف نے پائلٹ کو یہ حکم دیا کہ وہ اُنکے لئے ٹھنڈا پانی، اسنیک اور کافی لائے، پائلٹ نے جواب دیا کہ ” سرجی! ہمارے پاس صرف ٹھنڈا پانی ہے ، جنگ میں استعمال ہونے والے ہیلی کاپٹر میں صرف ٹھنڈا پانی ہوتا ہے، پیو اور جنت میں جاؤ” ” اِس سے بہتر ہوتا کہ میں شملہ چلا جاتا ، وہاں میری بہت خاطر مدارت ہوتی،کیا میں گھوڑے سے شملہ جاسکتا ہوں؟” نواز شریف نے پوچھا ”لیکن گھوڑا کس کا ، یہاں تو صرف گدھے آباد ہیں اور پھر بارڈر کے سپاہیوں نے اگر پکڑ لیا تو وہ پہلے پٹائی کرینگے اور پھر پوچھیں گے کہ کہاں جارہے تھے؟میں تو فورا”جواب دے دونگا کہ میں شہنشاہ اعظم سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے شملہ جارہا تھا اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو وہ اُن سے پوچھے ” پائلٹ نے کہا،”نہیں نہیں اگر میں بھارت پیدل یا گھوڑے پر گیا تو میں ہری رام ہری کرشنا کا روپ دھار کر جاؤنگا، میں نے لندن میں اِس کی ٹریننگ لی ہوئی ہے” نواز شریف نے کہا کہ تو آپ لندن علاج کے بجائے ہری رام ہری کرشنا کی ٹریننگ لینے گئے تھے ”،”ہاں کیوں نہیں ، وہاں گوری لڑکیاں دستیاب تھیں، وہ سیوا کرنا بہت اچھی طرح جانتی ہیں” نواز شریف نے کہا ”سر جی ! میرا پروموشن دو سال سے رکا ہوا ہے، بریگیڈئیر جنرل محمد اشرف کہتے ہیں کہ میں مہاجر ہوں اسلئے زیادہ ترقی نہیں کرسکتا، میں ابھی صرف میجر کے رینک پر گھِس رہا ہوں”
”اچھا وہی محمد اشرف پہلے میجر ہوا کرتا تھا ، اور جو میرے جیل کے سیل میں آکر چیخا کرتا تھا ، اور کہتا تھا کہ
کوئی بھی اُسے پھانسی لگانے سے نہیں روک سکتا ہے، انتہائی سر پھرا شخص معلوم ہوتا ہے، اُسے پنجابی سے بھی بہت چڑھ ہے، کہتا ہے کہ پنجابی پہلے ہندو کے دوست ہوتے تھے، ٹیلی فون لگاؤ عاصم منیر سے”
” نہیں نہیں ،سرجی! وہ ابھی بہت مصروف ہونگے، کیس اور بھی خراب ہوجائیگا”احتجاج میں شہید ہونے والوں کے بارے میں افواہیں اُڑ رہی ہیں لیکن شہید ہوکر زندہ ہوجانے والوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں آرہی ہیں، لاہور کے مشتاق محمد جب دو دِن تک اپنے گھر واپس نہیں آیا تو اُسکے گھر والوں نے یہ اخذ کر کیا کہ وہ بھی شہید ہوچکا ہے، اُسکے گھر اور محلے دار والوں نے اُس کیلئے قرآن خوانی شروع کردی لیکن اِسی دران دو دِن غائب رہنے کے بعد وہ لڑکھڑاتا ہوا نمودار ہوگیا، سارے محلے اور رشتہ دار چیخ چیخ کر یہ کہنے لگے کہ مشتاق زندہ ہوکر واپس آگیا،سب رو رو کر اُس سے گلے ملنے لگے، اُس نے بتایا کہ اسلام آباد پولیس والوں نے دو دِن تک اُس سے سڑک صفائی کراتے رہے اور پھر رہا کردیالیکن گجرانوالہ کا محمد شریف اپنی بھینس کے ساتھ مظاہرے میں شریک ہوا تھا، اُس کا پیشہ کاشتکاری کا ہے ، اور وہ اپنی بھینس کو پولیس والوں سے مقابلے کیلئے چھوڑ دیتا تھا، بھینس نے کئی پولیس والوں کو سینگ بھی مارا ، اِسلئے اُس کے خلاف تعزیرات پاکستان کے دفعہ 358 کے تحت مقدمہ بھی درج ہوا ہے، بالآخر پولیس نے اُسکی بھینس کو رکھ کر اُسے رہا کردیاہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here