پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پہلے بھی منہاج القرآن کے سو سے زیادہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا لیکن اس کا کوئی حل نہیں نکلا مسئلہ ہمارے ہاں یہ ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس جب تک آپ اقتدار میں ہیں جو چاہے کریں اور ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ ہمارے جرنیلوں کا کردار ہے جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے تو کچھ ملک کے لئے نہیں کیا لیکن اپنی ہی رعایا کیلئے بندوقیں تان لیتے ہیں اور دہشت گرد بنا کر کیفر کردار تک پہنچا دیتے ہیں۔ عمران خان کی کال پر جو عوام نکلی ہے جبکہ پنجاب میں تو دفعہ 144 لگا دی گئی تھی سندھ میں بھی یہی کیا گیا لیکن خیبر پختونخواہ میں کیونکہ حکومت پی ٹی آئی کی ہے اس لیے وہاں سے لوگوں کی بڑی تعداد ڈی چوک میں داخل ہو گئی ہمارے میڈیا پر تو پابندی لگ گئی تھی وہ تو کچھ نہیں بتا رہا تھا لیکن انٹریشنل میڈیا جس طرح بتا رہا تھا وہ تو لوگ دیکھ رہے تھے اور کس طرح حال بنایا گیا پہلے تو ہمارے فوجی جوانوں نے خوش آمدید کہا لوگوں سے گلے ملے، کنٹینر پر چڑھایا اور پھر ایک نماز پڑھتے ہوئے شخص کو اوپر سے دھکا دیکر گرا دیا گیا، جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ ٹک ٹاکر تھا ویڈیو بنا رہا تھا ،دیکھنے والے تو دیکھ رہے تھے جو ویڈیو جاری ہوئی اس وقت تو وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات بھی ہیں جس نے لوگوں کو بدظن کر دیا جس طرح امین علی گنڈا پور اور بشریٰ بی بی جائے وقوعہ سے غائب ہوئے اور لوگوں کو اکیلا چھوڑ دیا جو آگے نکل چکے تھے انہیں نہیں بتایا گیا کہ واپس آجائو حکومت نے وارننگ دیدی ہے ایک تو سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ آپس میں کوآرڈینیشن نہیں تھا۔ اسلام آباد میں اتنے لوگوں کا داخل ہو جانا ہی حکومت کی شکست تھی باوجود رکاوٹوں کے لوگ کیسے پہنچ گئے لوگوں کا جذبہ دیکھنے والا تھا اور سب یہی سوچ کر آئے تھے کہ جب تک عمران خان کو آزادانہ کروا لیں گے یہاں سے واپس نہیں جائینگے بشریٰ بی بی جو ہ سیاست میں ابھی نو وارد ہیں وہ تو اپنے خاوند کی محبت میں آگے آئیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ جو لوگ میرے ساتھ ہیں ان پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ پارٹی کی مرکزی قیادت کہیں نظر نہیں آئی خاص طور پر پنجاب سے ان کا کہنا یہ تھا کہ پابندیوں اور رکاوٹوں کی وجہ سے ہم نہیں نکل سکے جس طرح ہماری فوج نے رات کی تاریکی میں نہتے لوگوں پر فائرنگ کی اس کو چھپایا نہیں جا سکتا ،ہمارا میڈیا تو کچھ دکھا نہیں سکتا تھا ،اس لیے جو کچھ بھی نظر آیا وہ سوشل میڈیا اور انٹرنیشنل میڈیا کے ذریعے معلومات حاصل ہوئی ہیں جبکہ ہمارے وزیر دفاع محسن نقوی اور وزیر اطلاعات عطاء تارڑ کہہ رہے ہیں کہ کوئی فائرنگ نہیں ہوئی تو ان سے پوچھا جائے کہ اسلام آباد کو بلیک آئوٹ کیوں کیا گیا آنسو گیس تو مسلسل داغی جا رہی تھی لیکن جب اندھیرا کر دیا گیا اس کے بعد ہماری بہادر فوج نے کس کے حکم سے نہتے لوگوں پر فائرنگ کی۔ جب مطیع اللہ جان نے ہسپتال جا کر معلومات حاصل کرنی چاہئیں تو ان کو اغواء کر لیا گیا تاکہ وہ وہاں سے معلومات حاصل نہ کر سکیں آنیو الا وقت ہمارے ملک کے ان جرنیلوں کو عالمی عدالت میں دیکھ رہا ہے جس طرح انٹرنیشنل میڈیا نے لائیو کوریج دکھائی ہے اس کی بنیاد پر حکومت کیخلاف مقدمہ تو بننا چاہئے بنگلہ دیش میں فوجیوں نے اپنے لوگوں پر فائرنگ کرنے سے انکار کر دیا مگر ہماری بہادر فوج جس نے اپنے ہی ملک کے لوگوں کو چاہے وہ بلوچستان سے ہوں، لاہور سے ہوں، اسلام آباد کے ہوں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی، بلوچوں کا کہنا ہے کہ ان ہی حالات کی و جہ سے ہم نے ہتھیار اُٹھائے ہیں کچھ اطلاعات ہیں کہ صحافی طلعت حسین نے 106 افراد بتائے ہیں۔ کچھ کہہ رہے ہیں کہ 35 لوگ مارے گئے یہ تو پی ٹی آئی والے بتائیں گے کہ ان کے کتنے لوگ غائب ہیں جن کے گھروں کے لوگ مرے ہیں وہ تو بدلہ لیں گے اور پٹھان قوم بدلہ ضرور لیتی ہے۔ عمران خان کیساتھ کیا ہونے والا ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اتنا ضرور ہوا ہے کہ عمران خان جان دے دیگا لیکن ان لوگوں کے آگے جھکے گا نہیں ایک اور خبر آرہی ہے کہ حکومت الطاف حسین سے پابندی اُٹھا رہی ہے کیا الطاف حسین جو ساری زندگی فوج کیخلاف یعنی جرنیلوں کیخلاف باتیں کرتے رہے ہیں کیا انہوں نے بھی گھٹنے ٹیک دیئے ہیں، ایسا لگتا نہیں ہے لیکن کیا کہہ سکتے ہیں ،اس ملک پاکستان میں سب کچھ ہو سکتا ہے۔
٭٭٭