پاکستان میں آئین کی بالادستی کی بالادستی کا صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے اور قانون کے حکمرانی کے صرف نعرے لگائے جا سکتے ہیں، کہنے کو تو تلخ بات ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں آئین ہتھوڑا (عدلیہ) اور قانون بوٹ(فوجی اسٹیبلشمنٹ) ہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔کبھی کبھی تو یہ بھی کہنے کو دل کرتا ہے کہ آئین اور قانون غلط اقدامات روکنے کے لیے بنائے جاتے ہیں، مگر یہ ستم ظریفی دیکھئے کہ ہمارے ہاں غلط کام کرنے کے لیے بھی قوانین بنائے جاتے ہیں مگر ان کی بظاہر شکل و صورت بہت قانونی ہی ظاہر کی جاتی ہے۔یہاں تو قوانین نے اس شخص یعنی ذوالفقار علی کو بھی اگلے جہاں پہنچا دیا جس نے یہ قانون اور آئین بنایا،ذولفقار علی بھٹو مرحوم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جب 1973 میں آئین پاس کروایا تو اس وقت بڑے جوش سے کہا کہ آج پاکستان سے مارشل لا کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا مگر تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح مستقبل میں فوجی مارشل نے ہی ذولفقار علی بھٹو یعنی آئین کے خالق کو دفن کیا۔
اگر اپ آج کی صورتحال دیکھ کر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان میں آئین اور قانون پر عمل نہیں ہو رہا تو آپ یقینا کسی سیاسی جماعت کے ورکر کی حیثیت سے صرف اج کی صورتحال پر افسوس کر رہے ہیں،،، لیکن حقیقت میں تو گزشتہ کئی برسوں سے صورتحال ایسی ہی چل رہی ہے۔ صرف نظر انہی کو آتی ہے، جو اس صورتحال کا شکار ہوتے ہیں۔پاکستان میں ہمیشہ سے آئین اور قانون کو فوجی سیاسی جرنیلوں کی منشا کے خلاف لے جانے والا خیال حکمرانوں پر بھاری رہا، یہ الگ بات ہے کہ ہمیشہ سیاسی حکمرانوں کی باہمی چپقلش اور نالائقیوں کے سبق فوجی جرنیل اس قدر باثر محسوس ہوتے ہیں وگرنہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارے معاشرے اور ان کی زندگیوں میں ان کی اوقات سامنے آ جاتی ہے بہرحال وجہ جو بھی ہو پاکستان میں تو آئین اور قانون ہتھوڑے اور بوٹ کی باہمی دوستی اور مزاج کا نام ہے جس وقت جیسا مزاج اس وقت آئین اور قانون کی ویسے ہی تشریح ہوگی۔ اس لیے گھبرائیے مت انتظار کیجئے کہ کب ہتھوڑے اور بوٹ کا مزاج یا موڈ انتخابات کروانے سمیت دیگر قومی معاملات کی جانب جاتا ہے۔
٭٭٭