”غزہ سکڑنے لگا”

0
73

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے گھنائونے اثرات سامنے آ رہے ہیں جہاں ایک طرف غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے تو دوسری طرف لاشوں کے انبار انسانی حقوق کے دعویداروں کو منہ چڑھا رہے ہیں ، اسرائیل کا غزہ پر حملہ بظاہر حماس کی جانب سے حملے کے جواب میں کیا گیا لیکن اب اس جنگ کے گھنائونے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں، اسرائیل نے یہ جنگ حماس کو جواب دینے کے لیے نہیں بلکہ غزہ میں حال ہی میں دریافت ہونے والے تیل کے کنوئوں اور قدرتی ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے شروع کی ہے جبکہ پہلے سے ہی جیل کے نام سے مشہور غزہ کے علاقے کو مزید محدود کر دیا گیا ہے ، رہائشی علاقوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے جبکہ سرحد کے قریب رہائش گاہوں کو ٹنوں بموں اور بارود سے ملیا میٹ کر دیا گیا ہے ۔جنگ کے دوران اب تک 13ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں سے 70فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں ، سات اکتوبر سے شروع ہونے والی اسرائیل فلسطین جنگ کے دوران جانی نقصان روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ سے 70گنا زائد ہے۔جانی نقصان سے بچنے کیلئے فلسطینیوں کی بڑی تعداد کھلے میدانوں میں خیمہ زن ہوگئی ہے ، جبکہ عمارتوں کی جگہ اب صرف ملبہ ہی نظر آ رہا ہے ، قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے میں ثالثی کی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں چار روزہ وقفے کے دوران یرغمالیوں کے تبادلے کا آغاز کیا گیا تھا۔جمعے کی صبح سے شروع ہونے والے اس عارضی جنگ بندی کے دوران حماس کے پاس موجود 50 اسرائیلی یرغمالیوں اور اسرائیل کی جیلوں میں قید 150 فلسطینیوں کی رہائی کے علاوہ غزہ میں امداد کی فراہمی پر اتفاق کیا گیا تھا۔اسرائیل نے حماس کو مزید یرغمالیوں کی رہائی کی ترغیب دیتے ہوئے جنگ بندی کی مدت میں اضافے کی پیشکش بھی کی ہے۔یہ سات اکتوبر سے شروع ہونے والی لڑائی میں پہلا وقفہ ہے تاہم اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ یہ وقفہ جنگ کا خاتمہ نہیں۔اسرائیل کے یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے عارضی جنگ بندی کے معاہدے کے دوران اسرائیلی فوج کی کارروائیاں چار سے نو دن تک رْک گئی ہیں۔ عارضی جنگ بندی کا دار و مدار اس بات پر منحصر ہے کہ حماس کتنے یرغمالیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔اسرائیلی ماہرین کو توقع ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کے خاتمے کے ساتھ ہی غزہ شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کی جنگ دوبارہ شروع ہو جائے گی جو مزید ایک ہفتے سے 10 دن تک جاری رہے گی۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت غزہ کی پٹی کے جنوب کے تقریبا دو تہائی حصے میں 22 لاکھ افراد نقل مکانی کر کے آئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے بے گھر اور صدمے کا شکار ہیں۔المواسی نامی جگہ کے ریتیلے کھیتوں کے درمیان آباد خیموں کو سینکڑوں فلسطینیوں کے لیے آخری سہارا بھی کہا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے جوابی حملوں کے بعد سے غزہ کی پٹی میں تقریباً 17 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر جنوب میں لوگوں کے ہجوم سے گھرے خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔یاد رہے کہ غزہ کی زیادہ تر آبادی ان پناہ گزینوں سے تعلق رکھتی ہے جو 1948 میں اسرائیل سے بے دخل ہونے کے بعد خیموں میں آباد ہوئے تھے۔غزہ کی پٹی میں پہلے ہی آٹھ پناہ گزین کیمپ موجود ہیں جو کئی دہائیوں کے دوران گنجان آباد قصبوں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور اب اقوام متحدہ کسی اور کیمپ کے قیام کے لیے ذمہ دار نہیں بننا چاہتی۔سردیوں کی آمد کے ساتھ اسرائیل اپنی مہم کے فیصلہ کن اگلے مرحلے کی تیاری کر رہا ہے تاہم شہری آبادی کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے طریقہ کار پر اب تک کوئی معاہدہ نہیں ہوا، غزہ کی طویل اذیت جاری رہے گی اور شاید پہلے سے زیادہ خراب بھی۔دوسری طرف مسلم امہ کے ایک ساتھ بیٹھنے اور اسرائیل سے فوری جنگ بندی کے مطالبے کی کوئی اہمیت نظر نہیں آ رہی ہے ، حال ہی میں سعودی ولی عہد شیخ محمد نے بھی امریکہ اور سرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ فوری جنگ بندی کے لیے کردار ادا کریں جبکہ سعودی عرب کی جانب سے دنیا کے دیگر ممالک سے اپیل بھی کی گئی تھی کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے سے باز رہیں ، مسلم ممالک کے سربراہان کے درمیان بڑی بیٹھک کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی کا معاہدہ تو ہو گیا ہے لیکن اب اس جنگ بندی کو طویل جنگ بندی میں بدلنے کی ضرورت ہے جس کے لیے سب پرُ امید ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here